یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
دل چاہتا ہے کہ آج کچھ باتیں اپنی، کچھ ’دوسروں‘ کی اور کچھ ’ان‘ کی کر لی جائیں۔ حقیقت یہ ہے اپنی اور دوسروں کی باتوں میں بھی ’انہی‘ کی کہانی چھپی نظر آ رہی ہے۔
بچپن میں ان کہانیوں کے سننے کا شوق تھا۔ اب عملی زندگی میں انہی کہانیوں کا بہ انداز دگر بھگتنے کا اک طوق ہے، جس سے نجات آسان نہیں ہے۔ بچپن کی ان کہانیوں میں سے ایک کہانی بھیڑیے اور میمنے کی تھی۔ بھیڑیے کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس نے میمنے کو کھانا ہے۔
جنگل کی زندگی اور جنگل سے مائل بہ جنگلی حیات انسانی زندگی میں یہ قدر مماثل ہے کہ طاقتور کمزور کو کھائے گا، بار بار کھائے گا، کبھی بہانے کی بنیاد پر اور کبھی بے سبب۔ آج یہی پوری دنیا کی کہانی بن کر سامنے ہے۔ افراد سے لے کر گروہوں تک اور اقوام سے ملکوں تک یہی چلن ہے۔
بچپن کی اس کہانی میں بھیڑیے کو جنگلی دنیا کا سب سے طاقتور مانا گیا تھا۔ اس کی اس طاقت کی بڑی وجہ دوسری نسلوں کی کمزوری تھی۔ اپنی اسی طاقت کی بنیاد پر اسے امتیازی اختیار بھی حاصل تھے۔ جنگل کے بڑے چشموں کی ملکیت اسی کے پاس تھی۔
اس لیے جس کو بھی ان پانیوں کی طرف آنا ہوتا یا جسے بھی پانی سے سیراب ہونا ہوتا اس کے لیے بھیڑیے کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اس چشمے پر آنے، اس کے آس پاس گھومنے پھرنے کے سارے قوانین کا خالق بھی یہی بھیڑیا تھا، جب چاہتا ایک نیا قانون بنا لیتا، جب چاہتا کسی دوسرے جانوروں پر پابندیاں لگا دیتا۔ یہ اس کا پرانا طریقہ واردات تھا کہ اس کی شکار گاہ یہ چشمے اور اس سے متصل چراگاہیں ہی تو تھیں۔
جب چاہتا جسے چاہتا جھپٹ کر چیر پھاڑ دیتا اور اپنے پیٹ میں اتار لیتا۔ ایک روز بھیڑیا بھوک محسوس کر ہی رہا تھا کہ ایک بکری کا بچہ ادھر پانی کی تلاش میں آ نکلا۔ اس نے دیکھا پہاڑی سے پھوٹنے والے چشمے پر کچھ ہی فاصلے پہ اوپر کی سمت میں بھیڑیا بھی پانی پینے کے لیے موجود ہے۔
میمنے کو تھوڑا خوف تو محسوس ہوا مگر بھیڑیے نے ہلکی مسکراہٹ کا تاثر دے کر اس کے خوف کو کم کر دیا، یہ تو کوئی ’نیک دل سا بھیڑیا‘ ہے۔ یوں حوصلہ پا کر اس نے دور کھڑے ہو کرپانی پینا شروع کر دیا۔ بھیڑیا بہادر نے اچانک میمنے پر الزام داغا، ’یہ تم میری جانب آنے والا پانی کیوں گدلا کر رہے ہو؟‘
’صاحب چشمے کا پانی تو آپ کی طرف سے بہہ کر میری طرف آ رہا ہے، میں آپ کی طرف جانے والے پانی کو بھلا میں کیسے گدلا کر سکتا ہوں؟‘
’اچھا چلو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ بتا وہ چھ ماہ پہلے تم نے مجھے گالی کیوں بکی تھی؟‘
میمنے کو یہ الزام پہلے الزام سے بھی زیادہ غلط لگا مگر حد ادب حائل تھی، اس لیے بہ احترام کہا، ’جناب، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں تو چھ ماہ پہلے پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔‘
لیکن بھیڑیے کو بھوک ستا رہی تھی اس لیے اسے کوئی راستہ تو نکالنا تھا، بلاشبہ یہ بہت پرانی بات ہے اس زمانے میں نہ ’ایف اے ٹی ایف‘ ہوتا، نہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اقلیتوں کے ساتھ سلوک والا شعبہ تھا۔ نہ ہی کوئی سلامتی کونسل تھی اور نہ ہی کانگریس وجود میں آئی تھی کہ پابندیوں کا قانون باضابطہ طور پر منظور کرایا جائے۔
بس یہ کہا، ’تو پھر تمہارے ماں باپ نے مجھے گالیاں دی ہوں گی۔‘ اس کے ساتھ ہی ڈرون کی سی تیزی سے اچانک حملہ کیا، ’ہیل فائر‘ جیسے دانت گاڑے اور میمنے کا کام تمام کر دیا۔
آج گلوبل ویلیج کا شہری ہونے کے ناطے اس چشمے اور چراگاہ نما دنیا میں کبھی ایک کا اور کبھی دوسرے کا شکار بنتے دیکھنا سبھوں کا معمول بن چکا ہے۔ اس لیے بچپن میں سنی اور پڑھی کہانی حقیقت بن بن کر آئے روز سامنے آتی رہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بچپن گزرا تو لڑکپن اور جوانی کا دور شروع ہو گیا۔ بچپن میں فلمی دنیا تک رسائی تھی نہ اجازت۔ اب یہ ’دونوں مسئلے‘ ذرا حل ہو گئے۔ شروع کی چند فلموں سے ہی اندازہ ہونے لگا کہ اصل میں فلم ملتی جلتی کہانیوں کو الگ ناموں سے فلمانے کا نام ہے۔
اس کے اگرچہ کئی عناصر ہوتے ہیں، مگر جو اہمیت اس میں ہیرو اور وِلن کی ہے وہ کسی اور کردار یا عنصر کی نہیں ہو سکتی۔ ہیرو سے زیادہ اہم وِلن ہے کہ جس نے ایک انتہائی برا کردار ادا کرنے کے لیے خود کو اس کردار میں دوران شوٹنگ ڈھالنا ہوتا ہے اور پوری کاملیت کے ساتھ برا بننا ہوتا ہے کہ آج کی دنیا کا جیتا جاگتا کردار سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
مکمل بے رحم، بے حس، بے حمیت اور بد طینت، بدلحاظ اور بدنہاد۔ اس لیے کسی فلم کی کامیابی کا دار ومدار دراصل ولن کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ مزے کی بات ہے وِلن کی زندگی بڑی پر آسائش ہو سکتی ہے لیکن اس کا کردار منفی ہی ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ہیرو کوئی کسی غریب کا لے پالک بچہ یا کسی چھوٹے سے کھوکھے پر کام کرنے والا چھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کا کردار ہمیشہ آئیڈیل ہوتا ہے۔ اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ اخلاقیات ہوتی ہے۔
یہ جھگی نشین بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں فلم کے وِلن کا گھر اس زمانے کی فلموں میں بھی وائٹ ہاوس جیسا وسیع وعریض اور ہر نعمت سے مزین ہوتا ہے۔ بے شک دنیا کے سب سے عالی شان سمجھے جانے اور مرعوب کرنے والے وائٹ ہاوس کی طرح۔
اس پر اس کے ساتھی یا اتحادی غیر معمولی وفادار ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی علی بابا چالیس چوروں کی کہانی بھی چشم تصور کے سامنے اور میڈیا میں ایک فلم کی طرح گھوم جاتی ہے۔ 'جدید ترین، بہترین، مضبوط ترین، گاڑیاں، کوبرا قسم کے ہیلی کاپٹرز، طیارے، حتی کہ بغیر پائلٹ کے طیارے، وسائل کے انبار، افرادی قوت کے ڈھیر، دولت اتنی کہ جیسے دنیا میں سکہ ہی اس کا باقی رہ گیا ہو کہ اس کے کاغذی پیرہن کے سکے (ڈالر) کی قیمت سونے سے بڑھ گئی ہو۔
کسی ایک علاقے تک نہیں ہر ہر علاقے میں اس کی قوت کا بول بالا ہو مگر اخلاقی اتھارٹی کا شائبہ تک نہیں، اگر کسی معاملے میں کچھ دیر ملمع کاری میں کامیاب ہو بھی جائے تو جلد جھوٹ پر سچ نمایاں ہو جائے۔ متکبر ایسا کہ ٹرمپ سے کم مثال راس نہ آئے، بش سے کم نظیر نہ ملے۔
مگر اس کے پاس ساری دولت، سارے وسائل لوٹ مار کی وارداتوں کے، مال چوری، زمینیں اور جزیرے سب قبضے والے، چھنا جھپٹی، قبضہ گیری میں طاق اور قحبہ گری میں مشاق۔ جس کی دولت پر نظر رکھے، اسی کی ہو جائے۔
ساری زندگی لڑائیوں کے نام، کبھی ایک نام سے کبھی دوسری پہچان سے، خود اکثر محض زخمی ہوا، اکثر بندے کرائے کے ہی مروائے۔ پھر بھی جب واپس گھر کو آئے تو بے نیل ومرام ہی کہلائے۔ کبھی منہ چھپائے، کبھی بہانے بنائے۔ ایک لڑائی سے نکلے تو دوسری میں ٹانگ اڑائے۔
دوسروں کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کی ایسی مہارت کہ جس کے ساتھ چاہے ہاتھ کر جائے، بظاہر کسی کے کام آئے، کسی کو امداد پہنچائے۔ مگر جو کسی کو تھمائے وہ بھی سو سو بہانے واپس ہی لے آئے۔ لڑکپن اور جوانی میں دیکھی فلموں کا یہ وِلن کبھی کاؤ بوائے، کبھی پلے بوائے، جس روپ میں چاہے بن بن کے آئے۔
اب بڑھاپے کی دہلیز پر سب اسی وِلن کا ایک ایک کردار حقیقتوں کے روپ میں نظر آئے۔ اس لیے کوئی پاکستان میں 'رجیم چینج ' کی بات کرے تو بحث سے بچتا ہوں کہ طے شدہ امور کو پھر سے کھول لینا، انہی پر پھر سے بول دینا یہ کونسا معقول کام ہے۔
البتہ لوگوں کو ان مباحثوں میں الجھا دیکھ کر ماضی کی کہانیوں اور فلموں میں کھو جاتا ہوں اور کبھی کبھی تصور ہی تصور میں وائٹ ہاوس پہنچ جاتا ہوں۔ جس کے ایک سنگ سفید پر سیاہ دھبے ہویدا ہو جاتے ہیں۔
قریب جاتا ہوں تو دھبے لفظوں میں بدلنے اور تاریخ میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ صرف اپنی ہوش کی بات کروں تو 1953 ایران، 1960 کانگو، 1973 چلی، 1988 پاکستان، وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان کا نام دیکھتا ہوں تو جا بجا کئی حوالے اور ان کے اشارے بہ تفصیل ملتے ہیں، مگر شرمندگی سے پیچھے ہو جاتا ہوں، تصور کی آنکھیں بھی موند لیتا ہوں 'یاد ماضی عذاب ہے یا رب' ۔
نظر دوسری جانب گھماتا ہوں تو، کہیں مصر وشام، لیبیا وعراق، ویت نام کہیں افغانستان ہر ایک کی کہانی میں تھوڑ بہت فرق، کہیں محض تاریخ مختلف اور کہیں ایک ہی تحریر لیکن رسم الخط الگ الگ۔ کبھی چھڑی، کبھی گاجر!!
کبھی آمرانہ قبا اور کبھی جمہوری لبادہ، کہیں معیشت کی چیخیں نکلوانے کے لیے نکسن کی سی آئی کو چپکے سے دی جانے والی ہدایات کا دستاویزی ریکارڈ، کہیں جان بولٹن کی تازہ گواہی۔
چانکیائی سیاست کے سارے داؤ پیچ اس کے مقابل ہیچ نظر آنے لگیں، گوئبل کی روح وائٹ ہاوس میں زانوئے تلمذ طے کرنے کے لیے ایڑھیاں رگڑتی دیکھوں۔ ایک ایک سنگ سفید اندر سے اتنی تحریروں سے اٹا ہوا کہ جیسے اقوام عالم کی سیاہ بختی کثیر جلدی کتاب ہو۔
اب تو وائٹ ہاوس کے در و بام میں خود اپنے اور حملوں کی تاریخ کا نیا باب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی سبب اسے گھر میں چھاپوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اور تو اور جو بائیڈن کا اوباما کے ساتھ بظاہر رسمی عہدہ بھی کارہائے نمایاں سے بھرا ہوا، کہ ترکیہ کے صدر ترک اردوغان کو سبق سکھانے کے لیے وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ خود رابطے کی تصدیق موجود ہے۔ ’میری اب بھی یہی رائے ہے کہ اگر ہم اردوغان مخالف لوگوں سے براہ راست بات کریں تو بغاوت کرانے کے بجائے انتخابات میں اردوغان کو شکست دلوائی جا سکتی ہے۔‘
’رکھ رکھاؤ‘ ایسا کہ پوری کوشش کریں کہ ترکیہ کے موجودہ صدر کے خلاف بغاوت کرنے سے بچ جائیں اور اپوزیشن کی جماعتیں اردوغان کے سیاسی اور آئینی قتل کی اجتماعی ذمہ دار سنبھال لیں اور سارا مقصد جمہوری سبھاؤ کے ساتھ ممکن ہو جائے۔
گویا سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی بچ جائے۔ مگر شومئی قسمت کے بغاوت کی کوشش کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔ مگر عوام کی تعداد اور ٹینکوں سے زیادہ ہو جانے سے مسئلہ بگڑ گیا، اب 2023 کا چیلنج پھر سامنے ہے۔ ایک ایک چیز پر یقیناً نظر ہو گی۔
انسانی حقوق کا احساس ایسا گہرا کہ کبھی کبھی ایک عارضے کی شکل میں ڈھلا ہوا محسوس ہوتا ہو، اوباما ہوں تو پاکستان کے جنرل مشرف سے قریب رہ کر بھی دور رہیں، جو بائیڈن ہوں تو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنے انسانی حقوق کے ایجنڈے میں فٹ ہوتا نہ دیکھیں تو ’کٹی‘ کر کے بیٹھے رہیں، مگر جب مالی حاجتیں اور سیاسی ضرورتیں تنگ کریں تو چل کر آئیں۔
اس ناطے ’رجیم چینج‘ کے لیے امریکی تاریخ پر اور اپنے پاک وطن کے گرد وپیش کے جغرافیے پر نظر ڈالنے کے بعد مزید کسی بحث میں الجھنے کا موقع نہیں پاتا۔ بس اتنا دیکھتا ہوں کہ اگر روس، افغانستان، ترکی اور ایران رجیم چینج کے نشانے پر آ سکتے ہیں تو پاکستان کتنا دور پڑتا ہو گا۔
پھر خاموش ہو جاتا ہوں کہ اگر یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے، بہتان ہے دشنام ہے تو پاکستان ایسے ملک میں جس کی معیشت کے بارے میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو شروع سے شرح صدر ہے کہ سنبھل نہیں سکتی اس غربت کے مارے ملک میں خطے کا سب سے بڑا سفارت خانہ بنا کر کیوں اپنے وسائل کو ضائع کیے چلا جا رہا ہے۔
جس پاکستان میں توانائی کے بحران کا خاتمہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو نظر ہی نہیں آتا اس کے لیے ایسی کیا وجہ ہے کہ امریکی ہمیشہ پریشان رہتے ہیں، کیوں گندم تک پوری نہ کر سکنے والے ملک سے ناراض رہ کر بھی امریکہ ہر سطح پر رابطے میں رہتا ہے، اعلیٰ سیاسی وعسکری قیادت تو ایک طرف راجہ ریاض احمد اور نور عالم جیسے لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں۔
تاہم ایک پریشانی کا احساس رہتا ہے کہ ایسا مہذب امریکہ اگر پاکستان کے گرد وپیش میں اپنے پورے ایجنڈے کو رو بعمل لانے کے لیے مرنے مارنے کو تیار ہے تو پاکستان کے لیے استثنا کیسا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں ایک انگڑائی کی صورت حال ہے۔
لیکن اس سے بھی شدید تر یہ احساس ہے کہ اگر امریکہ کا یہ عالم ہے تو روس جس کے صدر پوتن تو ایک مکمل طور پر مختلف قماش کی شخصیت ہیں، وہ روس اس میدان میں کیا کیا حربے بروئے کار نہیں لاتا ہو گا۔ الحفیظ الامان کہنے میں ہی عافیت ہے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔