پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ چھٹی کہانی میں جانیے کہ گلگت بلتستان کی ریاست خپلو نے پاکستان کے ساتھ کب اور کیسے الحاق کیا۔
خپلو گلگت بلتستان کے چھ اضلاع میں سے ایک ضلع گانچھے کا صدر مقام ہے جبکہ پورے ضلع گانچھے کو بلتستان کے دیگر علاقوں کے لوگ خپلو بھی کہتے ہیں۔
یہ وادی سکردو سے 103 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ قدیم بلتستان میں یبگو سلطنت کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا، جہاں کے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں۔
خپلو قدیم دور سے لداخ کو بلتستان و دیگر علاقوں سے جوڑتا آیا ہے۔ یہیں سے سیاچن کو راستے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت مسلمہ ہے جبکہ اسی علاقے میں مشہ بروم جیسی بلند پہاڑیاں بھی واقع ہیں۔
بعض لوگ خپلو کو وادی شیوک کے نام سے بھی جانتے ہیں، جس کی وجہ وہ دریا ہے جس کا نام شیوک ہے، جو اس کی ذیلی وادی چھوربٹ سے بہتا ہوا تقریباً پوری وادی سے گزر کر کھرمنگ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔
اس چھوٹی سی بلتی سلطنت کا ذکر سب سے پہلے مرزا حیدر (1499–1551) کی مشہور کتاب ’تاریخ راشدی‘ میں خپالو کے نام سے ہوا۔
مصنف نے خپلو کو ایک بلتی ضلع قرار دیا ہے لیکن 17 ویں اور 18ویں صدی میں باہر کے لوگوں کو اس علاقے سے کافی شناسائی ہونے لگی جس کی وجہ سے اس علاقے کا لداخ سے جغرافیائی تعلق اور راجاؤں کی خاندانی رشتہ داری تھے۔
یہاں کے راجے اکثر اوقات سکردو کے راجوں کے ماتحت ہی رہے اور یہ راجے ایک خاص تعداد میں ٹیکس بھی ادا کرتے تھے۔
ان راجاؤں کے دور میں اس خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی غربت کی بھٹی میں پستا رہا۔ عام لوگ راجوں کو اپنی زراعت اور مال مویشیوں میں سے خاص قسم کا ٹیکس دینے کے پابند تھے۔
راجاؤں کا یہ دور قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں کہیں جا کے ختم ہوا اور اب بھی یہاں کے لوگ ان سے اسی حوالے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
کیپٹن کلاڈی مارٹن واڈے (1794–1861) شاید پہلے یورپی تھے جو اس مقام پر پہنچے۔ انہوں نے 1835 میں چھپنے والے ایک انگریزی مضمون ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں اسے ’چلو‘ کے نام سے پکارا ہے، جبکہ مارکروفٹ ٹریبک نامی خاتون مصنف نے 1841 میں چھپنے والی اپنی کتاب میں لکھا: ’کفالون ایک صوبہ ہے جو نوبرا میں شیوک کے کنارے واقع ہے‘۔
الیگزینڈر چیننگم نے 1854 میں اس علاقے کا ایک تفصیلی نقشہ اور اس علاقے کے راجاؤں کا شجرہ نصب بیان کیا ہے۔ ایک اور انگریز سیاح تھامس تھامسن نے نومبر 1847 میں لکھا کہ ’تبت کا ناقابل بیان خوبصورت علاقہ۔‘
نائٹ اپنے سفر میں بیان کرتے ہیں کہ خپلو بلتستان کا سب سے بڑا مالدار علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے جنت کے باغیچوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ جین ای ڈنکن اس علاقے میں 1904 میں پہنچیں اور یہاں تین ہفتے رہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ غالباً اس خطے کا سب سے ’پیارا نخلستان‘ ہے۔
بنات گل آفریدی کی کتاب تاریخ بلتستان
خپلو میں یبگو خاندان کا دور حکمرانی رہا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خپلو کی وادی کو وسطی ایشیا سے آنے والے نووارد باشندوں نے بسایا تھا، جو یا تو یارکند براستہ سلترو یا پھر ہنزہ گلگت، لداخ اور کشمیر سے آئے تھے۔ نووارد دین جو ہنزہ کی طرف سے آئے تھے، تھلے میں بس گئے جہاں انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے تین قلعے تعمیر کیے۔
کتاب کے مطابق جو یار کند کی طرف سے آئے تھے، نالہ تھگس سلترو ہشے میں آباد ہوئے اور انہوں نے چار قلعے تعمیر کیے تھے۔
خپلو کے مسلمان راجہ شاہ اعظم، جنہوں نے 1420 عیسوی تا 1450 تک حکمرانی کی، شاہ اعظم بیگ منتھال کی نسل سے 20ویں نسل کے پہلے مسلمان راجہ تھے۔
اس دور حکومت میں تین خانہ بدوش دارد قبیلے اپنے مویشیوں کے ریوڑ لے کر چلاس کی طرف سے آئے۔ ان کی درخواست پر راجہ نے برقپا کر کوڈوغونی سے لے کر نشیب کی طرف دریا شیوک اور دریائے سندھ کے سنگم تک کے علاقے کو دے دیا۔
شاہ اعظم کے آخری ایام کے دوران سید محمد نور بخش کشمیر سے سکردو آئے۔ وہ مختصر سی مدت کے لیے خپلو میں بھی ٹھہرے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ راجہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد چقچن مسجد کی بنیاد رکھی۔
راجہ محمد علی خان 1860 تا 1880عیسوی
لہاسہ کی افواج سے رہائی حاصل کرنے کے بعد محمد علی خان نے اپنے آپ کو دیوان ہری چند کے سامنے پیش کر دیا جو لداخ کی فوری نوعیت کی سریع الحرکت فوج کے سالار تھے۔ وہ اسے جموں لے گئے، کچھ عرصہ ریاست گیوسٹ میں گزار کر بعد میں وہ اپنے ملک لوٹ آئے اور دولت علی خان کی وفات کے بعد اس کے جانشین بنے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں راجہ علمدار علی خان نے بتایا کہ ’میں نے اپنے آبا و اجداد سے سنا ہے کہ ہم وسطی ایشیا سے یہاں آئے۔‘
’شروع میں ہجرت کر کے کاشغر کی طرف آئے، پھر سلترو سے ہوتے ہوئے یہاں آئے۔ سنا ہے آغاز میں خپلو میں چرواہے رہتے تھے، پھر ہمارے آباؤ اجداد نے چلاس اور کوہستان سے لوگوں کو لا کر یہاں آباد کیا۔ سب سے پہلے تھوقسی کھر بنایا، وہاں پر برقپا تھور اور برقپا بر کا ایک خاندان لایا گیا۔ برقپاہ چھر نے چھوربٹ کو آباد کیا اور تھور فیملی نے اوپر تھوقسی کھر آباد کیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارے چار راجہ تھے۔ سکردو، شگر، خپلو، کھرمنگ یہ سب ایک خود مختار ریاستیں تھیں۔ اس کے بعد ڈوگرہ نے یہ علاقے فتح کرنے کے بعد مہاراجہ کے تحت کر دیا۔ پھر یہاں کی زمینوں سے ہونے والی آمدن پر مہاراجہ کو ٹیکس ادا کیا جاتا تھا۔‘
’پھر پاکستان بننے کے بعد یہ علاقے آزاد ہو گئے اور ہم نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا، کیونک پاکستان ایک اسلامی ریاست تھی۔‘
راجہ خپلو کا انتقال 1983 میں ہوا، تو یہ قلعہ مسمار ہونا شروع ہو گیا۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے 2005 میں فنڈز جاری کیے تو اس کی تزئین و آرائش نئے سرے سے ہوئی۔
2011 میں خپلو فورٹ کو ایک ہوٹل نے کرائے پر حاصل کر لیا اور محل کا ایک حصہ سیاحوں کے لیے کھول دیا، جہاں پرانے زمانے میں استعمال ہونے والی تمام چیزوں کا ایک میوزیم بنایا گیا ہے۔