قبائلی اضلاع میں جب طالبان افغانستان کے راستے انگور اڈہ کے ذریعے وزیر علاقے سے ہوتے ہوئے محسود علاقے میں پھیلنا شروع ہوئے اور محسود علاقے کے لوگوں میں مذہب کے نام پر اپنے قدم جمانا شروع کیے تو قبائلی علاقوں کے لوگوں نے طالبان کی مدد شروع کی۔
جب مقامی علما نے جہاد فرض قرار دیا تو قبائلی عوام نے بھی اسلام کے نام پر طالبان کو پناہ دی۔ طالبان نے شروع شروع میں افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور جہاد کو لازمی قرار دیا تو مقامی لوگوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ ابتدا میں جب طالبان نے اپنے قدم جمانا شروع کیے تو انہوں نے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے علاقے میں اچھے اچھے کام کرنا شروع کیے۔
پہلے جب علاقے میں چوری ڈکیتی کے واقعات ہوتے تھے یا دشمنی کے بل بوتے پر ایک دوسرے کے مکانات کو راکٹ سے نشانہ بنایا جاتا تھا یا بم رکھے جاتے تھے تو اس قسم کے واقعات میں نہ صرف کمی آئی بلکہ اگر کسی کے گھر کا سامان گھر کو تالہ لگائے بغیر پڑا ہوتا تو کوئی اس کے سامان کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
جب طالبان قبائلی علاقوں میں آئے تو اس میں مقامی بےروزگار نوجوان بھی شامل ہوتے گئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ چھوٹے بچے بھی اس میں شامل ہوئے، جن کی عمریں پانچ سال یا اس سے کچھ زیادہ ہوں گی۔ کچے ذہن والے ان بچوں کی ذہن سازی اتنی مہارت سے کی جاتی تھی کہ بچے تو بچے بڑے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اکثر چھوٹے بچوں کو کہا جاتا کہ جس کے تکیے پر صبح کے وقت پھول پڑا ملے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو گا اور وہ خودکش حملہ کرنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔
یہاں ایک روایت مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک طالب علم نے اپنے استاد کو رات کے وقت ایک بچے کے سرہانے پھول رکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس لڑکے نے وہ پھول اٹھا کر چپکے سے استاد کے سرہانے رکھ دیا۔ جب صبح ہوئی اور استاد نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ کس کو قبول کیا گیا ہے۔ جب تلاشی لی گئی تو استاد کے سرہانے پھول پڑا ملا۔ استاد نے اس بات کو لڑکوں کی شرارت قرار دے کر ٹال دیا۔
جب امریکہ کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا گیا تو سب نے لبیک کہا مگر جب یہ نعرہ پاکستان میں خودکش حملے کرنے تک پہنچ گیا تو لوگوں میں تشویش جنم لینے لگی۔ بہت سے لوگ خاص کر خواتین اپنے بچوں کی نگرانی کرنے لگیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ خواتین تمام قبائلی حدود کو ایک طرف رکھ کر خود طالبان کے پاس چلی جاتیں اور ان سے بحث و مباحثے کے بعد اپنے بچوں کو واپس گھر لے آتیں، لیکن اگلے روز ان کے بچے پھر چوری چھپے نکل جاتے۔
یہ دور قبائلی علاقوں کے لیے کڑا امتحان تھا۔ جو شخص طالبان سے بےزاری ظاہر کرتا، اس پر فتوے لگائے جاتے اور ایمان سے خالی قرار دیا جاتا رہا۔
ایک مقامی استاد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر موجودہ حالات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پہلے پہل طالبان وزیرستان آئے تھے تو میں یہ سوچتا رہا کہ جہاں سب لوگ ایک طرف ہیں اور جہاد کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری فیملی ہے جو ان سے دور بھاگ رہی ہے، کہیں ہم ایمان سے خالی تو نہیں، آیا ہم جنہمی تو نہیں؟‘
ٹیچر نے بتایا کہ ’میں نے اپنے والد صاحب کو اپنے خدشات بتائے تو والد نے مجھے سمجھایا۔ اس کے بعد ہمارا ایک کزن جو طالبان قیادت کر رہا تھا اس سے میرا سامنا ہوا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کا خاندان اسلام اور ایمان سے خالی ہے۔ جواب میں میں نے کہا کہ یا تو ہم ایمان اور اسلام سے خالی ہیں یا پھر آپ لوگ اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی استاد نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آرمی آپریشن شروع ہوا تو وہ کزن جو طالبان کی قیادت کر رہا تھا وہ کراچی پہنچ گیا اور متاثرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا اور سب کچھ چھوڑ کر جان بچانے لگا۔ میں نے اسے فون کیا اور بتایا کہ کیا ہم ایمان سے خالی تھے یا آپ؟ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے میرا نمبر بلاک کر دیا اور اب اتنے سالوں بعد بھی ہمارا رابطہ نہیں ہے۔‘
اب جو قبائلی اضلاع میں طالبان پھر سے آ رہے ہیں یا یوں کہا جائے کہ مبینہ طور پر آ چکے ہیں تو اب مقامی لوگ اسے کس نام سے قبول کریں گے؟ اب تو حقیقت سب پر واضح ہو چکی ہے اور بچے بچے کو پتہ ہے کہ یہ ایک پرائی جنگ تھی جو ہم پر مسلط کی گئی اور پشتونوں کے جان و مال کا بےتحاشا استعمال کیا گیا۔ قبائلی عوام اب مزید یہ جنگ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک طرف شعور اور دوسری طرف اندھیرنگری ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
قبائلی اضلاع کے عوام مزید اس ظلم کو برداشت کرنے اور ان عناصر کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔
قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ طالبان کو باقاعدہ طور پر قبائلی اضلاع میں لایا گیا ہے اور آدھے سے زیادہ اختیارات طالبان کے حوالے کیے گئے ہیں۔ پولیس اور باقی محکموں کو مذاکرات کے نام پر خاموش تماشائی بننے کے احکامات ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ 2008 کے طالبان اور اب کے طالبان کے احکامات میں کسی حد تک لچک ضرور دیکھنے کو ملے گی۔ ایک قبائلی مشر کے مطابق طالبان کا یہ پراجیکٹ شاید پانچ سال یا ذیادہ سے ذیادہ 10 سال تک چل جائے کیونکہ اب لوگوں میں شعور آ چکا ہے اور لوگوں میں مزاحمت کرنے کی صلاحیت آ چکی ہے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مقامی نوجوان کا کہنا ہے کہ جس طرح ماضی میں ہمارے بچوں کی ذہن سازی ہوتی رہی، اسی طرح ہمیں اب بھی اندیشہ ہے کہ دوبارہ سے ہمارے بچوں کی وہی تربیت نہ ہو سکے، اس لیے اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ہم فکرمند ہیں۔
ایک مقامی سکول کے مالک نے بتایا کہ طالبان نے انہیں کہا کہ اپنے سکول میں ہمارے دو کمرے رہنے کے لیے خالی کر دیں۔ سکول کے مالک نے بتایا کہ طالبان کی طرف سے بچوں کی تعلیم پر پابندی بھی نہیں لگائی جا رہی جیسے کہ 2008 میں لگائی جاتی رہی، بلکہ طالبان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن ایک خوف جو سب کو لاحق ہے وہ یہی ہے کہ طالبان سکولوں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی جہاد والی وہی سوچ ان سکول کے بچوں پر اثر انداز نہ کر دیں جیسا کہ 2008 میں بچوں کا استعمال کر کے انہیں خودکش حملوں کے لیے تیار کیا جاتا رہتا تھا۔
ویسے بھی اعداد و شمار کے مطابق خودکش حملے کرنے والوں میں زیادہ تعداد 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی ہے۔
اگر قبائلی عوام نے کسی بھی طرح ان سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی تو دن دور نہیں کہ یہی قبائلی عوام ایک بار پھر سے ذلیل و خوار ہو کر اپنے علاقے سے دور مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے اور قبائلی اضلاع کا اسی طرح ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔