یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں توہین عدالت کے الزام میں کسی سیاسی شخصیت کو نوٹس جاری ہوئے ہیں، البتہ یہ پہلی مرتبہ ضرور ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو توہین عدالت کے الزام میں نوٹس جاری کر کے طلب کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے عمران خان کو خاتون ایڈیشل سیشن جج کو دھمکی دینے کے الزام میں 31 اگست کو طلب کر رکھا ہے۔
ملکی تاریخ میں ایسی کئی سیاسی، سرکاری شخصیات کے علاوہ وکلا اور حتیٰ کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی ہیں، جنہیں توہین عدالت کے نہ صرف نوٹسز جاری ہوئے بلکہ کچھ کو تو سزا بھی ہوئی۔
توہین عدالت کے نوٹسز عدالتی احکامات کی پاسداری نہ کرنے بلکہ عدالتی وقار کے خلاف بات کرنے پر جاری کیے گئے۔
سیاسی شخصیات کی بات کی جائے تو تین مختلف وزرائے اعظم کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے لیکن صرف ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی۔
ان وزرائے اعظم میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے نام شامل ہیں لیکن صرف یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں سزا ہوئی بلکہ اسی پاداش میں انہیں وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک زیر سماعت معاملے پر رائے دینے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہوئے تھے۔ یہ درخواست ذوالفقار علی بھٹو کے سخت گیر حریف اور حزب اختلاف کے بڑے رہنما چوہدری ظہور الہی نے دائر کی تھی، جس میں نشاندہی کی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے بارے میں زیر سماعت معاملے پر جلسہ عام میں بات کی اور یہ عمل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے حکومتی وضاحت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر مزید کارروائی آگے نہیں بڑھائی اور معاملہ ختم ہو گیا۔
اسی طرح جب نواز شریف کو توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا گیا تو وہ وزیراعظم کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
ان کے وکیل اور سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے نواز شریف کے موقف کی وضاحت کی جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ معاملہ نمٹا دیا اور معاملہ آگے برھنے کی نوبت نہیں آئی۔
ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے بعد یوسف رضا گیلانی تیسرے وزیراعظم ہیں، جنہیں نہ صرف عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر نوٹس جاری کیے گئے بلکہ انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی برخاستگی تک قید کی سزا سنائی تھی اور سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ اس واقعے پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی اور اس وقت کی حکمران جماعت کے تین ارکان اسمبلی کو سزا سنائی۔
ان میں ہاکی کے نامور کھلاڑی اختر رسول، مایہ ناز ٹی وی میزبان طارق عزیز اور لاہور سے ہی رکن قومی اسمبلی میاں منیر شامل تھے۔
1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے لیکن سپریم کورٹ کی سزا کی وجہ سے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار پائے۔
مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمان بھی عدلیہ کے خلاف بیانات دینے پر توہین عدالت کے قانون کی گرفت میں آئے۔
سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کے سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں گفتگو پر انہیں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی گئی اور اس کے ساتھ ہی وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہ رہے۔
سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی کے عدلیہ کے بارے میں بیان پر از خود نوٹس لیا اور انہیں بھی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس طرح نہال ہاشمی بھی عوامی اور سرکاری عہدے کے لیے اہل نہیں رہے۔
2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی حکومت میں بھی میمو گیٹ کے بارے میں عدالتی کارروائی پر توہین آمیز تبصرے پر اس وقت کے وزرا کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری ہوئے۔
ان وزرا میں بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، سید خورشید شاہ اور قمر الزمان کائرہ شامل تھے لیکن سپریم کورٹ کے روبرو اس پر کارروائی میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے بارے میں بیان دینے پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں فل بینچ کے سامنے سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی لیکن احسن اقبال نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
اسی تین رکنی فل بینچ نے پنجاب کے سرحدی ضلع قصور میں عدلیہ مخالف ریلی پر رکن قومی اسمبلی شیخ وسیم اختر کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے بہاولپور سے دو ارکان اسمبلی کے عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز بیان پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔
اس وقت کے چیف جسٹس راشد عزیز خان کی سربراہی میں فل بینچ نے ارکان اسمبلی چوہدری سمیع اللہ اور افضل گل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی اور انہیں سزا سنائی۔
بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم ہونے پر اپنے خلاف ریفرنس کے لیے سابق وزیراعظم لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں تو رش کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کی عدالت میں توڑ پھوڑ ہوئی۔
اس پر ایک وکیل نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی جس میں بینظیر بھٹو، اعتراز احسن، خواجہ طارق رحیم سمیت سابق وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کو فریق بنایا گیا، لیکن کئی برس یہ درخواست زیر سماعت رہنے کے بعد غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف توہین عدالت کے لیے عدالت سے رجوع کرنے والے جانے مانے وکیل ایم ڈی طاہر کو خود بھی توہین عدالت کے کیس میں جیل جانا پڑا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس افتخار حسین چوہدری نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران ایم ڈی طاہر کو توہین عدالت کے الزام میں سزا سنا دی اور انہیں جیل بھیج دیا، تاہم لاہور ہائی کورٹ بار کے اس وقت کے صدر حافظ عبدالرحمان انصاری نے ایم ڈی طاہر کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس کے بعد انہیں رہائی ملی۔
وکلا تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جنہوں نے تین نومبر 2007 کو فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔
ان ججوں میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی شامل تھے۔ توہین عدالت کے نوٹس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے اپنے عہدے سے استعفے دے دیے، جس کی وجہ سے ان ججوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ ہوسکی۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرح وکلا کو بھی توہین عدالت کا سامنا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم بینظر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف غیر قانونی اثاثے قائم کرنے کے ریفرنس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی احتساب بینچ کے سربراہ جسٹس احسان الحق چوہدری اور پیپلز پارٹی کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
وکلا حاجی دلدار اور میاں حنیف طاہر اور جسٹس احسان الحق چوہدری کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں دونوں وکلا کو جیل بھیج دیا تھا۔
موجودہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے اونچی آواز میں بات کرنے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے۔
فل بینچ نے یہ نوٹس سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جاری کیے۔ تین رکنی فل بینچ نے اسی معاملے پر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کیا، تاہم بعد میں یہ نوٹس خارج کر دیے گئے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم شہباز شریف ایک مقدمے میں جیل میں تھے اور ان کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شیخ اعجاز نثار اور جسٹس سجاد سپرا پر مشتمل بینچ کے سامنے زیر سماعت تھی۔
سماعت کے دوران چوہدری فاروق اور جسٹس سجاد سپرا کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اشتر اوصاف علی جو اس وقت اٹارنی جنرل ہیں، انہوں نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کو طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا لیکن چوہدری فاروق کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سفارش کی۔ اسی وجہ سے چوہدری فاروق کے دوسری مرتبہ اٹارنی جنرل بننے میں دشواری آئی تاہم یہ معاملہ بھی سلجھا لیا گیا۔