پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگران سرکاری ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اسریٰ یونیورسٹی میں فوری طور پر تمام داخلے روک دیے ہیں۔
قومی اخبارات میں جمعرات کو شائع ہونے والے اشتہارات میں کمیشن نے اس اقدام کی کوئی وجہ نہیں بتائی، تاہم کہا گیا کہ جاری بحران کے خاتمے تک حیدر آباد، کراچی اور اسلام آباد میں اسریٰ یونیورسٹی کے کیمپسس اور میڈیکل کالجز میں تمام داخلے بند رہیں گے۔
اسریٰ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں داخلوں کی بندش کی کچھ تفصیل بتائی گئی ہے۔
’والدین اور طلبہ متوجہ ہوں‘ کے عنوان سے اشتہار نما بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایک گروپ (شناخت واضح نہیں کی گئی) اسلام آباد اور کراچی کیمپس میں جعلی ڈگریاں جاری کرنے کی کوشش کرکے انہیں لوٹنا اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔‘
بیان میں وضاحت کی گئی کہ ’ڈگریاں جاری کرنے کا اختیار اسریٰ یونیورسٹی حیدرآباد کے پاس ہے، جس کی تصدیق ہائر ایجوکیشن کمیشن سے کی جاسکتی ہے۔‘
رجسٹرار عبدالقادر میمن کے نام سے جاری اس بیان میں والدین اور طلبہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان نامعلوم اور غیرمتعلقہ اشخاص کے جھانسے میں نہ آئیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق اس تعلیمی ادارے کا مسئلہ دو گروپوں کے درمیان تقریباً دو سال سے جاری ایک تنازع دکھائی دیتا ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے ایک میٹنگ کے دوران یونیورسٹی کے ان دو گروپوں کو اختلافات ختم کرنے اور معاملات بہتر کرنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا تھا، تاہم اختلافات برقرار رہے۔
چیئرمین ایچ ای سی نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا اور فوری طور پر اسریٰ یونیورسٹی کے میڈیکل سمیت تمام شعبوں میں داخلے روک دیے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار اسریٰ یونیورسٹی رضوان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو کو بتایا کہ ’اسریٰ یونیورسٹی حیدرآباد پر ایک فریق جبکہ اسریٰ یونیورسٹی کے کراچی اور اسلام آباد کیمپسز پر دوسرے فریق کا قبضہ ہے اور فریقین کی جانب سے آپس میں جامعہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرکے پرائیویٹ پبلشر سے جعلی ڈگریاں چھپوا کر طلبہ میں بانٹنے اور جامعہ کی پراپرٹی پر قبضے کے الزامات کے بعد ایچ ایس سی کی جانب سے ایسی پابندی لگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رضوان خان کے مطابق: ’چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے دونوں فریقین کو ایچ ای سی سیکرٹریٹ میں سننے کے بعد اپنے تفویض کردہ اختیار کے تحت جامعہ پر فال 2022 میں نئی رجسٹریشن لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے ایچ ای سی نے طلبہ کی آگاہی کے لیے ایک الرٹ بھی جاری کیا جبکہ ایچ ای سی چیئرمین کی طرف سے دونوں فریقین کو اپنے معاملات ایک ماہ کے اندر کلیئر نہ کرنے کی صورت میں جامعہ کا این او سی کینسل کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔‘
اسریٰ یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری کا موقف لینے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد بار رابطہ کیا، تاہم ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
اسریٰ یونیورسٹی کراچی اور اسلام آباد کے کیمپسز پر مبینہ قبضے کے خلاف یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے گذشتہ برس فروری میں مذمت کی تھی۔ اس بیان میں انہوں نے اسلام آباد اور کراچی کی ضلعی انتظامیہ سے تعاون کی اپیل بھی کی تھی۔
بیان میں ان کا الزام تھا کہ اسریٰ اسلامک فاؤنڈیشن کے عہدیداروں نے مسلح افراد بھیج کر اسلام آباد کیمپس پر غیرقانونی قبضہ کیا ہے کیونکہ فاؤنڈیشن کا اس ادارے سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تاہم اسریٰ اسلامک فاؤنڈشن کی ویب سائٹ پر اسلام آباد اور کراچی کیمپسز اپنی ملکیت ظاہر کیے گئے ہیں۔ ویب سائٹ پر درج تفصیل کے مطابق 1985 میں بیرون ملک اور پاکستان میں کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے ایک گروپ نے خاص طور پر سندھ اور پاکستان کے پسماندہ لوگوں کی خدمت کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ویب سائٹ کے مطابق اس کے بعد اسریٰ اسلامک فاؤنڈیشن لمیٹڈ کی تشکیل ہوئی اور حیدرآباد میں ایجوکیشن - ہیلتھ کمپلیکس سے پروگرام کا آغاز ہوا۔