’بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو میں اپنے خاندانی کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔ تب میری عمر یہی کوئی 23، 24 برس تھی۔
’لیکن چند سال پہلے پشاور کے ایڈورڈز کالج میں پڑھتے ہوئے میں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوا تھا اور وہ میرا سیاسی عقیدہ بن گئے تھے، اس لیے پارٹی پر مشکل وقت آتے ہی میں فوراً وطن واپس لوٹ آیا اور ضیائی مارشل لا کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔‘
یہ کہانی ہے سابق صوبائی وزیر اعظم آفریدی کی، جو انہوں نے چند دن پہلے مجھے سنائی۔ انہوں نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا: ’انہی دنوں مجھے اپنے آبائی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ چند ہفتوں بعد رہائی ملی تو میں نے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے بھٹو کی رہائی اور ضیاالحق کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد شروع کی۔
’چند دنوں بعد درجن بھر گاڑیوں نے سر شام ہمارے گھر کا گھیراؤ کیا اور میں اپنی بوڑھی ماں کو روتا ہوا چھوڑ کر گاڑی میں جا بیٹھا، جہاں میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ گاڑی کون سے راستوں پر جاتی رہی، مجھے کوئی علم نہ تھا، لیکن ایک گھنٹے بعد میں نے محسوس کیا کہ گاڑی چڑھائی چڑھ رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی رکی اور مجھے اتار کر ایک کمرے میں لا کر پھینک دیا گیا، تاہم میری آنکھوں کی پٹی کھول دی گئی۔
’رات اس نیم تاریک سیل میں گزری اور صبح مجھے ایک بیرک میں شفٹ کر دیا گیا، جہاں مجھ سے الذولفقار اور جہاز کے اغوا کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی۔ میں کیا بتاتا کہ مجھے تو اس کے بارے میں قطعاً کوئی علم ہی نہیں تھا۔
’تفتیش کے دوران پوپ جان پال پر حملے کا بھی پوچھا جاتا رہا۔ میں نے حسب عادت قدرے سادگی کے ساتھ کہا: ’خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ پوپ جان پال ہے کون اور رہنے والا کہاں کا ہے۔‘
’اس عقوبت خانے میں مجھے کئی دن ہو چکے تھے، لیکن یہ علم نہیں تھا کہ یہ کون سی جگہ بلکہ کون سا شہر ہے کیوں کہ مجھے اپنے سیل سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا تھا۔ ایک دن ایک کھلے ہوئے روشن دان کو دیکھ کر میں نے بمشکل باہر جھانکا تو ’رائل بینک آف انگلینڈ‘ کا بورڈ نظر آیا۔ اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے قلعہ بالا حصار میں رکھا گیا ہے۔
’تفتیشی ٹارچر اور قید کئی ماہ تک کاٹنے کے بعد رہائی ملی تو پھر سے اپنی پارٹی کے لیے کام شروع کر دیا۔
’اس دوران بھٹو کو پھانسی دی گئی تو میں نے سخت احکامات کے باوجود بھی اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی غائبانہ نماز جنازہ کا انتظام کیا اور مارشل لا کے احکامات کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس لیے اگلے دن پھر گرفتار ہوا اور یہ سلسلہ لگ بھگ اگلے 10 سال تک چلتا رہا۔ کھبی جیل تو کبھی رہائی۔
’اس دوران مجھے پارٹی نے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صوبائی صدر مقرر کیا اور میں مارشل لا کے تمام دور میں اس عہدے پر رہا۔
’1983 میں سٹوڈنٹس یونین کا آخری الیکشن ہوا تو میں پشاور یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا، تاہم وقفے وقفے سے میں پشاور ہری پور بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں میں بھی آتا جاتا رہا۔
’جیل سے جب رہا ہو کر گھر آتا تو میری بوڑھی اور بیمار ماں میرے گلے لگ کر روتے ہوئے پوچھتی کہ ’بیٹے اب تو جیل نہیں جاؤ گے نا؟‘
میں کہتا: ’ہاں ہاں اب نہیں جاؤں گا‘ اور پھر خود سے کہتا کہ میں اپنی مرضی سے تھوڑی جاتا ہوں؟
’میری مشکلات اور قید و بند میری ماں کی بیماریوں خصوصاً شوگر میں خطرناک حد تک اضافہ کرنے لگیں۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب جیل میں مجھے اطلاع ملی کہ بڑھتے ہوئے شوگر کے سبب میری والدہ کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری ماں کی شوگر کبھی بھی اس حد تک نہ بڑھتی اگر ان کا بیٹا ایک سیاسی کارکن نہ ہوتا۔‘
سیاسی جدوجہد کی یہ سربلند لیکن دلدوز کہانی اپنے مشترکہ دوست ولی شنواری کے گھر سابق رکن صوبائی اسمبلی سابق صوبائی وزیر اور سابق ڈسٹرکٹ ناظم پشاور اعظم آفریدی مجھے سناتے اور شاندار کھانے اور پر لطف محفل کے باوجود بھی اداس کرتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اس اداسی سے میں نے ایک فخر بھرا لطف بھی لینا شروع کر دیا تھا، اس لیے میں نے سیاسی کارکنوں کی تاریخ کے ایک یادگار کردار کو نہ موضوع سے ہٹنے دیا اور نہ رکنے دیا۔
میرے اگلے سوال کے جواب میں اعظم آفریدی نے ایک سادگی کے ساتھ کہا کہ ’جی مارشل لا کے دوران لگ بھگ چھ سال جیل کاٹی۔ چوں کہ اب عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے اس لیے جیلوں میں پیش آئے بہت سے واقعات بھی بھول گیا ہوں۔‘
اور پھر اچانک کوئی واقعہ یاد آیا تو آنکھیں بند کرتے اور ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک بار شدید گرمی کا موسم تھا اور ہم بنوں جیل میں تھے اور یہ جیل بہت مشکل تھی۔۔۔‘
میں نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا، ’بنوں جیل زیادہ مشکل کیوں تھی؟‘
انہوں نے جواب دیا: ’وہ اس لیے کہ اس جیل کی آبادی انگریز دور کی تھی اور چھتیں بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں اس لیے رات کو سوتے ہوئے چھتوں سے ریت گرتی اور ہمارے منہ، نتھنوں اور آنکھوں میں جاتی اس لیے ہمیں الٹا ہو کر سونا پڑتا تھا۔ اس جیل میں اذیت بھی بہت دی جاتی تھی۔‘
اعظم آفریدی نے پھر اپنے پائنچے اور آستینیں اوپر کر کے مجھے جلتے ہوئے سگریٹوں سے دیے گئے وہ داغ بھی دکھائے، جو اب بھی ان کے بوڑھے وجود پر چمکتے ہوئے ایک کارکن کی سیاسی جدوجہد کی سربلندی کی گواہی دے رہے تھے۔
میں نے پھر سے یاد دلایا: ’آپ بنوں جیل کے کسی واقعے کا ذکر کر رہے تھے۔‘
’ہاں ہاں وہ جی ایسا ہوا کہ ایک بار شدید گرمی کا موسم تھا اور میں بیرک میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا، چوں کہ گرمی بہت زیادہ تھی اس لیے میں نے قمیص اتار دی اور لیٹ گیا۔
’تھوڑی دیر بعد میرے پیٹ پر اچانک کوئی چیز گری اور مجھے تیز چبھن کا احساس ہوا۔ میں نے فوراً پیٹ پر ہاتھ مارا۔ ہاتھ میں کوئی چیز آئی، میں اسے پکڑ کر جلتے ہوئے بلب کی طرف بھاگا۔ مٹھی کھولی اور دیکھا تو وہ ایک انتہائی زہریلا سیاہ بچھو تھا جس نے مجھے دو جگہ سے کاٹ لیا تھا۔
’میں نے فوراً اسے زمین پر پھینک کر پاؤں سے کچل دیا، لیکن زہر کے اثر سے مجھے ایسا لگا جیسے میرے پورے جسم پر کسی نے آگ انڈیل دی ہے۔ میں بمشکل چارپائی تک پہنچا اور جتنی آیتیں اور وظائف یاد تھے وہ پڑھتا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے کاٹی گئی جگہوں سے زہر نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔ صبح کے وقت تھوڑا آرام آیا تو۔۔۔‘
میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا: ’آپ نے مدد کے لیے جیل کے عملے یا کسی ساتھی کو کیوں نہیں بلایا۔ آپ کے ساتھ والی بیرکوں میں آفتاب شیرپاؤ اور نصیر اللہ بابر کے علاوہ پارٹی کے دوسرے ساتھی بھی تو تھے؟‘
اعظم آفریدی نے قدرے شرماتے ہوئے جواب دیا: ’نہیں جی، ایک سیاسی کارکن آہ و بکا اور فریاد کرتا پھرے تو دنیا کیا سوچے گی؟ ہم تو اپنی تکلیفوں کو گھر والوں تک سے چھپاتے پھرتے تھے۔‘
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: ’اوہ میرے خدایا!‘
ان سیاسی کارکنوں نے خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، کس غضب کی تاریخ رقم کی ہے۔ دلیری اور سربلندی کی ایک قابل فخر تاریخ، لیکن خود اس کے ذکر سے بھی گریزاں۔
مڑ کر زمانہ حال کی سمت دیکھا تو سامنے ایک چیختی چنگھاڑتی غل غپاڑہ کرتی ہڑبونگ مچاتی اور بھاگتی اور چھپتی ہوئی تاریخ تعمیر ہو رہی تھی۔ تضحیک آمیز اور احمقانہ بلکہ مزاحیہ تاریخ کی تعمیر!