خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شہباز گل پر ملک کے اداروں کے خلاف بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
25 اگست کو تھانہ چھاؤنی میں درج کیا گیا یہ مقدمہ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) ڈی آئی خان کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
صوبائی حکومت نے ایک مراسلے کے ذریعے ڈی آئی خان کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے تحت بغاوت سے متعلق مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا تھا۔
مقدمے میں مدعی منیر احمد نے موقف اختیار کیا کہ شہباز گل نے آٹھ اگست کو نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام میں اداروں کے خلاف بیان دے کر بغاوت پر اکسایا تھا۔
مقدمے میں صوبائی حکومت کے اس مراسلے کا حوالہ بھی دیا گیا، جس کے تحت مدعی کو بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں مدعی نے موقف اختیار کیا ہے: ’شہباز گل نے کہا تھا کہ اگر فوج نے موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کی تو پاکستان انڈیا اور امریکہ کی کالونی بن جائے گا۔ اس بیان سے انہوں نے فوج میں بغاوت کی کوشش کی ہے۔‘
شہباز گل کے خلاف پہلے ہی اسلام آباد اور کراچی میں بغاوت کے مقدمات درج ہیں۔ اسلام آباد میں درج مقدمہ اس وقت زیر سماعت ہے۔
مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا کہ ایک طرف پی ٹی آئی حکومت شہباز گل پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے خلاف ہے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی ہی کی صوبائی حکومت ہوتے ہوئے خیبر پختونخوا میں ان پر مقدمہ درج کیا گیا؟ جس پر انہوں نے بتایا: ’ہم نے جس افسر کو اختیار دیا ہے، ان کو بتایا ہے کہ کوئی بھی شخص جو اداروں کے خلاف بات کرتا ہے، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘
بیرسٹر سیف نے بتایا: ’ہم نے ایڈیشنل کمشنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ بغیر سیاسی وابستگی کے، کسی بھی ایسے شخص کے خلاف مقدمہ درج کریں، جو عدلیہ، فوج یا دیگر ریاستی اداروں کے خلاف بات کرتا ہے۔‘
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ایڈیشنل کمشنر کو اختیار دینے کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے رہنماؤں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کریں۔
کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے مطابق صوبائی یا وفاقی حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کو ریاست کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے سکتی ہے۔
اس دفعہ کے مطابق: ’کوئی بھی عدالت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 108A، 295A، 294A، 153A اور 505 کے تحت تب تک کارروائی نہ کرے، جب تک ان مقدمات کی درخواست صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے اختیار کنندہ افسر کی طرف سے دائر نہ کی گئی ہو۔‘
پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی یہ دفعات ریاست کے خلاف جرائم سے متعلق ہیں۔ پی پی سی کی دفعہ A108 کسی کو قتل پر اکسانے کے حوالے سے ہے اور اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے پر اکسایا تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح پی پی سی کی دفعہ 153A زبانی، تحریری یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کسی مذہبی یا دوسرے گروپ کے جذبات کو ابھارنے کے حوالے سے ہے، جو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جاتا ہے۔
پی پی سی کی دفعہ 505 مسلح افواج کے خلاف کچھ بولنے، لکھنے یا شائع کرنے کے حوالے سے ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 2020 میں بھی اسی قسم کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں وزارت داخلہ کے ایک سیکرٹری کو ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو مقدمات درج کرنے کا اختیار دیے جانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ہم نے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات پر پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا تھا کہ ’اس حوالے سے ڈی آئی خان کے اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو اختیارات دیے گئے ہیں اور یہ مقدمات علی امین کی شکایات پر درج کیے جائیں گے۔‘
صوبائی حکومت کی جانب سے منیر احمد کو علی امین گنڈاپور سے غداری مقدمات لینے کا یہ نوٹیفیکشن پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔
اس فیصلے کو چیلنج کرنے والے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مقدمے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، صوبائی کابینہ، ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے جبکہ کیس کی سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔