پاکستان میں بغاوت کے الزام میں مقدمات کا اندراج نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی انہونی ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے بغاوت کے الزام میں مقدمات کا سامنا کیا ہے اور اب اس فہرست میں تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔
شہباز گل پر ریاستی ادارے کے خلاف عوام کو اکسانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ اسی الزام میں گرفتار ہیں۔ شہباز گل کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا ہے کچھ اسی طرح کا مقدمہ تقریباً 19 برس پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید ہاشمی کے خلاف اکتوبر 2003 میں درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں جاوید ہاشمی کو 23 برس قید کی سزا ہوئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ کئی قد آور سیاسی شخصیات نے اپنے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمے کا سامنا کیا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے اس الزام سے بری ہوگئے۔ یہ مقدمات جمہوری اور فوجی حکومت کے دوران قائم کیے گئے۔
پاکستان کے قیام کے کچھ عرصہ بعد بغاوت کے الزام میں مقدمے درج ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پہلا مقدمہ مارچ 1951 میں درج ہوا جو ’پنڈی سازش کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ اس مقدمے میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے رہنما سجاد ظہیر اور میجر اسحاق سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ لیاقت علی خان کے قتل کے تین برس بعد بھی چلتا رہا۔
سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ایک سازش کا انکشاف ہوا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ یہ کیس ’اگرتلہ سازش کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا لیکن بعد میں شیخ مجیب اس مقدمے سے بری ہو گئے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر خان ولی خان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ ولی خان سمیت ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور سابق گورنر ارباب سکندر خان سمیت دیگر کے خلاف حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہوا اور اسی وجہ سے اسے ’حیدر آباد سازش کیس‘ کا نام ملا۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹربیونل تحلیل ہو گیا اور اس ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو معافی دے دی گئی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی نے فوج کے حوالے سے خط کو بنیاد بنا کر پریس کانفرنس کی اور اسی پر ان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا جس میں انہیں 23 برس کی سزا ہوئی اور بعد میں سپریم کورٹ سے انہیں رہائی ملی۔
اس مقدمے کے بعد بغاوت کے الزام میں مقدمات کے اندراج کا سلسلہ رک گیا لیکن نواز شریف کے تیسرے دورے حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ایک تقریر کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور اسی مقدمے میں الطاف حسین کو سزا سنائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم الطاف حسین کے بیرون ملک ہونے کی عدالتی سزا پر عمل نہیں ہو سکا۔ عدالت نے الطاف حسین کے نام اور ان کی تصویر کی اشاعت اور اسے نشر کرنے پر پابندی بھی لگائی۔
جاوید ہاشمی کے علاوہ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کو بھی ریاست مخالف بیان دینے پر لاہور میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار بھی کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد لاہور کی ضلعی عدالت نے ضمانت منظور کی اور رہا کرنے کا حکم دیا۔
بغاوت کا الزام پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر پر بھی لگا ہے۔ 2020 میں ان کی ایک تقریر کو اشتعال انگیز قرار دے کر کراچی میں مقدمہ درج کیا گیا اور اسی سال اس مقدمے میں انہیں ضمانت مل گئی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پر بھی متنازع بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نامزد ہوئے۔ تاہم یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
بغاوت کے مقدمات کے اندراج کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق اور بےنظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام بھی فوجی افسروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔
تاہم سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد جرنیل ہیں جن پر آئین توڑنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوئی اور انہیں سزا سنائی گئی۔ ان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے نہ تو سزا پر عمل ہو سکا اور اس سزا کے خلاف اپیل زیر التوا ہے۔