دبئی سپورٹس سٹی ایک بار پھر مرکز نگاہ ہے کیونکہ آج (اتوار) کی شام دو ایسے ممالک کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی جن کے عوام کے لیے آپس کا میچ کسی ’جنگ‘ سے کم نہیں ہوتا۔
پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں جب بھی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں ساری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔
گذشتہ ورلڈ کپ میں دبئی میں پاکستان اور انڈیا کا میچ اب تک کے تمام کرکٹ ایونٹس میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 30 کروڑ سے زائد شائقین نے یہ میچ دیکھا۔
انڈیا اور پاکستان کی عالمی مقابلوں میں ہار جیت کا پلڑا ہمیشہ بھارت کے حق میں رہا لیکن پہلی مرتبہ پاکستان نے انڈیا کو گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست دے کر اس یک طرفہ تاریخ کو بدل دیا۔
اب تاریخ نے کروٹ لی ہے اور کم از کم ایک جیت نے اس انڈین فخر کو منہدم کر دیا کہ ’ہم ناقابل شکست‘ ہیں۔
آج جب دبئی سپورٹس سٹی میں دونوں ٹیمیں کھیلیں گی تو کروڑوں انڈین شائقین کی بلیو شرٹس سے یہی امید ہوگی کہ گذشتہ ورلڈ کپ کا بدلہ چکایا جائے۔
کیا ایسا ہو سکے گا؟ یہ تو آج پتہ چل جائے گا لیکن ہم دونوں ٹیموں کا جائزہ لے کر کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
پاکستان ٹیم جو نیدرلینڈز کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز جیت کر دبئی پہنچی ہے اس کے لیے سب سے اہم خبر یہ ہے کہ فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی دستیاب نہیں ہوں گے۔
شاہین شاہ پاکستان کے سب سے اہم بولر ہیں اور متعدد بار اپنی بولنگ سے پاکستان کو فتح دلا چکے ہیں۔
پاکستان کو ان کے نہ ہونے سے کتنا نقصان ہوگا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انڈین شائقین نے ان کی عدم موجودگی کا سوشل میڈیا پر جشن منایا اور من چلوں نے تفریحی میمز سے پاکستان کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی۔
تاہم بابر اعظم خود اس میچ سے قبل کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ’ون مین‘ سکواڈ نہیں اور ان کا سکواڈ میچ ونر کھلاڑیوں سے بھرا ہوا ہے، جو شاہین آفریدی کی غیر موجودگی میں ’اضافی ذمہ داری‘ اٹھائے گا۔
دوسری طرف انڈین بولنگ اٹیک کو بھی دھچکا پہنچا ہے کیونکہ جسپریت بمرا غیر حاضر ہوں گے۔
پاکستان کی بولنگ کا دارومدار اب حارث رؤف، نسیم شاہ اور محمد حسنین پر ہو گا۔ دبئی کی بیٹنگ پچ پر نسیم شاہ کی طوفانی بولنگ فرق ڈال سکتی ہے۔
پاکستانی بیٹنگ کا سارا بوجھ بابر اعظم اور محمد رضوان اٹھائیں گے لیکن سب سے اہم کردار شاداب خان کا ہوگا جو وقت کے ساتھ ایک بہتر بلے باز بن چکے ہیں۔
اگر پاکستان کا ٹاپ آرڈر کہیں پیچھے رہتا ہے تو شاداب خان، فخر زمان اور محمد آصف کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے لیے سب سے مشکل بات یہ ہوگی کہ مڈل آرڈر میں محمد حفیظ اور شعیب ملک موجود نہیں۔
خوش دل شاہ اور محمد نواز ان کے نعم البدل ہیں لیکن دونوں کے پاس وہ تجربہ نہیں اور دونوں کے لیے اتنے بڑے میچ کا ابھی حوصلہ بھی نہیں۔
انڈیا کی بیٹنگ میں جس کا سب سے زیادہ چرچا ہے وہ نوجوان بلے باز سوریا کمار یادویو ہیں۔ گذشتہ کچھ میچوں میں ان کی بیٹنگ نے کمال دکھایا ہے۔
ان کے ساتھ رشبھ پنت بھی اچھی فارم میں ہیں۔ دونوں کی طوفانی بیٹنگ شاہینوں کی پرواز کا امتحان لے سکتی ہے۔
وراٹ کوہلی ٹیم میں واپس آئے ہیں۔ ان کے لیے ایشیا کپ بہت اہم ہے کیونکہ آسٹریلیا جانے سے پہلے وہ اپنے بیٹ کو صیقل کر لینا چاہتے ہیں۔
کوہلی کے لیے یہ ٹورنامنٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کپتان روہیت شرما، کے ایل راہول اور ہاردک پاندیا بھی اچھی فارم میں ہیں اور اگر ان سب نے توقع کے مطابق بیٹنگ کی تو پاکستان کو بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی۔
بولنگ میں سارا بوجھ بھونیشور کمار اور ارشدیپ سنگھ پر ہوگا جبکہ یوزویندرا چہل اور اجے جدیجا کی مڈل اوورز میں سپن بولنگ کا اہم کردار ہوگا۔
دونوں ٹیمیں کافی متوازن اور پرجوش نظر آتی ہیں۔ اگر بھارت کو بیٹنگ میں کچھ برتری حاصل ہے تو پاکستان کی بولنگ بہتر نظر آتی ہے۔ تاہم دو اہم بولرز کی عدم دستیابی مسئلہ بن سکتی ہے۔
اگست میں دبئی کا موسم بہت گرم اور مرطوب ہوتا ہے، اس لیے دوسری اننگز میں بولنگ کرنے والی ٹیم کو اوس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیلی گیند کے ساتھ گیند کی گرپ کمزور ہو جاتی ہے اور بولرز کو سپن نہیں ملتا جس کے باعث ٹاس بہت اہم ہوگا جو ٹیم ٹاس جیتےگی وہ پہلے بولنگ کرے گی۔
اس کا تازہ مظاہرہ گذشتہ روز افغانستان ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں سری لنکا کے خلاف کر چکا ہے، جہاں اس نے پہلے بولنگ کرتے ہوئے سری لنکا کی پوری ٹیم کو صرف 105 رنز پر ڈھیر کر دیا۔
بھارت کی ٹیم ہر لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود پاکستان سے مقابلے کے لیے پریشان نظر آتی ہے۔
کوچ راہول ڈریوڈ کرونا کا شکار ہوکر ٹیم سے الگ ہو گئے ہیں اور عارضی طور پر وی وی ایس لکشمن نے چارج سنبھال لیا ہے جبکہ کپتان روہیت شرما بھی مکمل فٹ نہیں۔
پاکستان اس کے مقابلے میں پراعتماد نظر آتا ہے، تاہم کمزور ٹیموں سے مسلسل کھیلنے کے باعث بڑے مقابلے میں ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہوگی کیونکہ طویل عرصہ بعد ایک مضبوط ٹیم سے ٹاکرا ہوگا۔