خلیج بنگال کے ساحل پر ریت کے ذریعے شاہکار فن پارے بنا کر پوری دنیا میں شہرت حاصل کرنے والے سدرشن پٹنایک کی کہانی میں بڑے نشیب و فراز آتے ہیں۔
سدرشن کا بچپن دوسرے کے گھروں میں جھوٹے برتن مانجھنے اور ساحل کے کنارے چھوٹے چھوٹے فن پارے بنانے میں گزرا ہے۔ مشکلات کے سائے میں برسوں کی مشقت اور جدوجہد کے بعد اب وہ ایک عالمی شہرت یافتہ سینڈ آرٹسٹ بن چکے ہیں۔
ریت کے ذریعہ مجسمہ بنانے کے فن میں کمال مہارت کی بنیاد پر انڈیا میں سدرشن پٹنایک کو چوتھا اہم شہری اعزاز پدما شری سے نوازا گیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ایک کم عمر مزدور تھا، میں اپنے پڑوسی کے گھر میں کام کرتا تھا۔ میری ڈرائنگ اور پینٹنگ میں کافی دلچسپی تھی۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے، ساحل سے گھر کا فاصلہ پانچ منٹ کا تھا۔ تو مجھے یہیں ایک کینوس مل گیا۔ تو میں نے اپنی انگلیوں سے یہاں ریت پر مجسمہ بنانا شروع کیا۔
’یہاں پر کچھ بنانے کے بعد کچھ سیاحوں نے دیکھا اور سراہا تو مجھے خوشی ہوئی۔ میں نے سوچا کہ دن بھر میں کام کرتا ہوں لیکن کوئی مجھے اچھا نہیں سمجھتا، لیکن یہاں لوگ میرے کام کو سراہتے ہیں۔ تو اس کی وجہ سے میری دلچسپی اور بھی بڑھ گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سدرشن پٹنایک کے مطابق: ’ریت آرٹ کے تئیں بھارت میں بہت طویل عرصہ تک غفلت برتی گئی۔ ہمارے ملک میں بھی لوگ اس آرٹ کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ریت ہرجگہ تھی۔ سمندر ہرجگہ تھا۔ لیکن لوگ سوچتے تھے کہ اس کو بنانے کا کیا فائدہ ہے، بن کر فوراً ٹوٹ جائے گا۔ بہت وقت لگ گیا یہ جاننے میں کہ یہ کتنا بڑا آرٹ ہے۔
’جب حکومت ہند نے مجھے ملک کے چوتھے امتیازی شہری اعزاز پدم شری سے نوازا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ اس آرٹ میں کچھ ہے۔ نوجوانوں میں تھوڑی بیداری پیدا ہوئی اس فن کے تعلق سے۔‘
سدرشن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایشیائی ممالک میں تیزی سے سینڈ آرٹ کا رجحان بڑھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں دیکھتا ہوں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بڑی تعداد میں آرٹسٹ ہیں جو کہ سینڈ آرٹ تشکیل دے رہے ہیں، پہلے اتنا زیادہ نہیں تھا۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے، میں نے دیکھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار میں سینڈ آرٹسٹ ہیں۔‘