انڈیا: تنخواہ سے محروم فیکٹری ورکروں کی خودکشی کی کوشش

2021 کے حکومتی اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ خودکشی سے ہونے والی اموات میں سب سے زیادہ اضافہ ان لوگوں میں ہوا ہے جو ذاتی اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

18 جولائی 2022 کو ایک شخص انڈیا میں نئی دہلی میں ایک فیکٹری میں کام کر رہا ہے۔ (اے ایف پی)

انڈین حکام نے کہا ہے کہ وسطی انڈیا میں سات ماہ سے تنخواہ سے محروم سات ورکروں نے فیکٹری کے احاطے میں خود کشی کی کوشش کی ہے۔

اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق خود کشی کی کوشش کرنے والے ساتوں محنت کش وسطی مدھیہ پردیش ریاست کے اندور شہر میں ماڈیولر کچن کا سامان بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ انہیں اسی کمپنی کی ایک اور فیکٹری میں بھیجا جا رہا ہے تو ان سب نے زہر کھا لیا۔

اخبار کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی شناخت جمنادھر وشوکرم، دیپک سنگھ، راجیش مامیرونیا، دیوی لال کروڑیا، روی کروڑیا، جتندر دھمیا اور شیکر ورما کے ناموں سے ہوئی ہے۔ فیکٹری نے ان لوگوں کو دو سے 20 سال کی مدت کے لیے ملازم رکھا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب تمام سات کارکنوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ پولیس نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ نجی کمپنی کے کارکنوں کو گذشتہ سات ماہ سے ان کی اجرت باقاعدگی سے ادا نہیں کی گئی۔

وشوکرما، جو اب خطرے سے باہر کارکنوں میں سے ایک ہیں، نے کمپنی پر الزام لگایا کہ وہ ملازمین کو نوکری سے نکالنا چاہتی ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ فیکٹری انتظامیہ کھلے عام قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنی کے مالک کارکنوں کی ملازمت برقرار رکھے جانے کی کوششوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

محنت کش نے دی ایکسپریس کو بتایا کہ’مالک روی بافنا نے ہمیں بتایا کہ آپ کو ایچ آر کی بات سننی ہے اور جو وہ کہے کرنا ہو گا۔ آپ میرے پاس نہیں آ سکتے۔ آج جب ہم پرانی فیکٹری میں کام پر گئے تو ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کے بجائے دہلی اور ممبئی سے ایسے کارکنوں کو لائیں گے جن کے پاس اس شعبے کا تجربہ ہے۔‘

فرم کے ایک اور ملازم نے بتایا کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے سات افراد کو کمپنی پہلے ہی تبدیل کر رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سات کارکنوں کو صرف دو دن پہلے بتایا گیا کہ فیکٹری میں کوئی کام نہیں لیکن سب نے بدھ کو معمول کے مطابق کام دوبارہ شروع کر دیا۔ فیکٹری میں معمول کے مطابق کام ہوتا دیکھ کر ان سات کارکنوں کو دھچکا لگا۔

خودکشی کی کوشش کی تحقیقات کرنے والے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کارکنوں نے پہلے دوسری فیکٹری میں منتقلی پر رضامندی ظاہر کی لیکن بدھ کو زہر کھا کر احتجاج کیا۔ انہیں قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں بعد میں انہیں خطرے سے باہر قرار دیا گیا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق پولیس انسپکٹر کے بقول: ’ملازمین نے دو روز قبل رضامندی ظاہر کی لیکن بدھ کو صبح 11 بجے کے قریب فیکٹری پہنچنے کے بعد انہوں نے تبادلے کے خلاف احتجاج کیا اور پھر زہریلی چیز کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ انہیں ایم وائی ہسپتال لے جایا گیا۔‘

فیکٹری کے مالک کا موقف ہے کہ انتظامیہ نے ان ملازمین کو الگ یونٹ میں منتقل کرنے کی منظوری دے دی کیوں کہ وہ اس وقت جس یونٹ میں ملازم تھے، مالک کے مطابق اس کی حالت اچھی نہیں تھی۔ فیکٹری مالک کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے متاثرہ کارکنوں کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام کا مزید کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج تلاش کر رہے ہیں کیوں کہ پولیس کو بتایا گیا کہ کارکنوں نے فیکٹری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

فیکٹری کے مالک، بافنا کا دعویٰ ہے کہ جب مزدوروں نے زہریلی چیز کھائی تو وہ وہاں نہیں تھے۔

بافنا نے دعویٰ کیا: ’ہماری فرم تاریں تیار کرتی ہے اور میں وہاں نہیں تھا جب ہماری فرم کے سکیورٹی گارڈ نے مجھے اطلاع دی کہ کچھ کارکنوں نے کوئی زہریلی چیز نگل لی ہے۔ میں موقعے پر پہنچا اور ان کی طبیعت بگڑتی دیکھ کر انہیں ہسپتال لے گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ کارکنوں کے مسائل کی حقیقی نوعیت سے آگاہ نہیں تھے۔

2021 کے حکومتی اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ خودکشی سے ہونے والی اموات میں سب سے زیادہ اضافہ ان لوگوں میں ہوا ہے جو ملک میں ذاتی اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

ملک بھر میں خودکشی سے ہونے والی اموات کی شرح گذشتہ سال اپنی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس میں 2020 کے مقابلے میں 11.52 فیصد اضافہ ہوا۔ 2020 میں 7.17 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی ہر 10 لاکھ آبادی میں 120 لوگ خود کشی کرتے ہیں۔

مزید برآں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مدھیہ پردیش نے گذشتہ سال خودکشیوں کی تیسری سب سے زیادہ تعداد رپورٹ کی۔ حکام کے پاس کل 14965 کیس درج ہوئے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا