چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے اور قانون کو اپنا خود راستہ خود بنانا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر منگل کو چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ کی سکیورٹی انہیں اندر نہیں جانے دیتی کہ وہ تفتیش کا عمل آگے بڑھائیں۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر وہ تعاون نہیں کرتے تو قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون نہیں کیا جائے گا تو عدالت اس اخراج مقدمہ کی درخواست نہیں سنے گی۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو یقین دہائی کروائی کہ عمران خان دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق توہین آمیز الفاظ کے استعمال پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مجسٹریٹ کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت دہشت گردی کے مقدمے کا اندراج کیا گیا تھا۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ درخواست مقدمے کی ڈرافٹنگ ہی درست نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مقدمہ اکیلے نہیں ہوتا بلکہ پینل کوڈ کے مطابق کسی سیکشن کے ساتھ ملا کر لگایا جاتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ ان کے مطابق پہلی ایف آئی آر میں مزید دفعات نہیں تھیں لیکن بعد ازاں اب تین اضافی دفعات شامل کی جا رہی ہیں جو کہ حیراں کن ہے اور عدالت اس کا جائزہ لے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر کی رپورٹ آئی ہے؟ تو ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر نے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیشی افسر جب نوٹس بھیجتا ہے تو تفتیش کا حصہ بننا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک قانونی عمل ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ افسر یونیفارم میں ہیں اور یہ عدالت کے سامنے ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں ہمیں ان کی عزت کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت یہ فرض نہیں کر سکتی کہ تفتیشی افسر تحقیقات کے بعد یہ کہے کہ دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کا عمل مقدمے کے اخراج کے لیے ضروری ہے اور یہ تفتیشی افسر اور نظام کے لیے ایک امتحان ہے۔ عدالت تفتیشی افسر سے توقع رکھتی ہے کہ اگر یہ کیس غلطی سے بنا ہے تو تفتیش مکمل کر کے اس کو درست کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے اس کے بعد عدالت کو مطلع کرے کہ کیا کیس بنتا ہے یا نہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت سے کہا کہ ہم آپ کو 10دن میں رپورٹ جمع کروا دیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں صرف ایک تقریر ہے کہیں کوئی حملہ تو نہیں ہوا؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہے تو صرف ایک تقریر لیکن اس کے تانے بانے بہت پیچھے تک ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو تفتیشی افسر کے معاملے میں مداخلت کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔