بلوچستان کے ضلع پشین میں روایت سے ہٹ کر جدید طرز کےایک باغ میں عالمی معیار کے انگور پیدا ہوتے ہیں۔
انہیں آٹم رائل اور ریڈ گلوب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باغ کے مالک عبدالرشید کہتے ہیں کہ ’امریکن اور ہمارے انگوروں میں فرق صرف ملک کا ہے، باقی ہمارے انگور زیادہ ذائقہ دار ہیں۔
’یہ انگور آپ کو بہت کم یہاں کی مارکیٹ میں ملیں گے۔ ذائقے کے ساتھ یہ ہر قسم کے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے مون سون کی بارشیں ہوئیں لیکن ہمارے درخت اور ان کے پھل محفوظ ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہمارے ہاں کاشت کاری کا طریقہ تقریباً 200 سال پرانا ہے جس میں زمین زیادہ اور درخت کم لگتے ہیں جبکہ جدت سے ہم کم زمین پر زیادہ بڑا باغ لگا سکتے ہیں۔‘
عبدالرشید نے بتایا کہ وہ خاندانی زمیندار نہیں نہ پہلے کسی نے یہ کام کیا۔
’2008 میں ضلع پشین میں زراعت کے حوالے سے ایک پروگرام ہوا تھا۔ جس میں ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ سے انہوں نے کچھ انگوروں کی اقسام منگوائی ہیں، جو لوگ لگانا چاہتے ہیں تو ہم ان کو قلمیں دیں گے۔ اس وقت سے مجھے بھی انگور کے باغ لگانے کا شوق ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے باقاعدہ اس کام کا آغاز 2012 میں کیا جب انہیں انگور کی قلمیں دی گئیں، جن میں امریکن اقسام آٹم رائل، ریڈ گلوب اور کرمسن سیڈ لیس شامل تھے۔
’میں نے یہ کام شروع کیا تو خود بھی بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی، تحقیق اور تجربے کیے۔ ایک قسم میں ہمیں مسئلہ ہوا وہ کرمسن سیڈ لیس ہے، جس کو دنیا میں بہت اچھا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں موسم کی وجہ سے یہ ناکام ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ریڈ گلوب اور آٹم رائل انگور کو آپ سٹور بھی کر سکتے ہیں۔ دکاندار کو بھی اس کو رکھنے میں فائدہ ہوتا ہے کیونکہ جو روایتی انگور ہے اسے دکاندار ایک دن میں فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ دوسرے دن یہ خراب ہوجاتا ہے، یہ اقسام خراب نہیں ہوتیں۔
’ہماری جو روایتی قسمیں ہیں کشمش اور سُندر خانی، وہ جلد پک جاتی ہیں اور ان کو فوری کاٹنا پڑتا ہے جبکہ امریکن اقسام کی خوبی ہےکہ اگر مارکیٹ میں قیمتیں کم ہیں توآپ ان کو دومہینے تک درخت پر ہی چھوڑ سکتے ہیں۔‘
’اس سال جو مون سون کی بارشیں ہوئی ہیں ان میں ہمارے ضلعے میں اسی فیصد باغات تباہ ہوئے ہیں جبکہ ہمارے انگور کے باغ کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ کیوں کہ اس کی جنگ ہی ان بارشوں سے ہے۔‘
عبدالرشید نے بتایا کہ رنگ والے انگور کےلیے دھوپ اور چاند کی روشنی کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔
ڈرپ ایری گیشن کا نظام
ان کے مطابق روایتی طریقے سے ہٹ کر وہ تین دن بعد پانی دینے کی بجائے قطرہ قطرہ پانی ڈرپ ایری گیشن سے دیتے ہیں جو بیلوں کی جڑ تک پہنچتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ کار میں انگور کے درخت پر پھل بہت زیادہ لگتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سالانہ بہت زیادہ پھل حاصل کرتے ہیں۔
آرگینک انگور
انہون نے بتایا کہ ان کے باغ سے حاصل شدہ 50 فیصد تک انگور آرگینک ہوتے ہیں۔
کھاد بنانے کی غرض سے وہ گوبر کی بجائے بھیڑ بکریوں کی مینگنیاں استعمال کرتے ہیں جو سبی سے منگواتے ہیں۔
’ہم باغ میں بہت سے کچھوے بھی رکھتے ہیں۔ کچھوے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ یہ انڈے دینے کےلیے زمین کو نرم بناتا ہے، جو بیکٹریا کے لیے مناسب جگہ ہوتی ہے۔
’اس کے علاوہ ایک جڑی بوٹی ہے جس کو ہم پشتو میں شوتل کہتے ہیں۔ اس کے بیج سالانہ تین چار من ڈالتے ہیں۔
’اس جڑی بوٹی کی خوبی یہ ہے کہ اس کی جڑ مولی کی طرح ہوتی ہے، جو زمین کو توڑ دیتی ہے جس میں بیکٹیریا آسانی سے بنتے ہیں۔
کھاد اور ادویات کا استعمال
عبدالرشید کہتے ہیں روایتی زمین دار مقابلے میں اپنے باغ کو آدھا حصہ بھی کھاد نہیں دیتے۔
ان کے مطابق جب اس کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت ڈالنے سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔
’اس لیے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کھاد کس وقت کتنی مقدار میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘
گرافٹنگ یا پیوند کاری
عبدالرشید نے بتایا کہ بلوچستان میں لوگ سیب اور دوسرے درختوں کی پیوندکاری کرتے ہیں لیکن انگور کی کوئی نہیں کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس نظام کو سمجھنے کے لیے میں آٹھ، دس سال کام کیا تب جا کر میں اس کو سمجھنے کے قابل ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انگور میں 15 اقسام کی پیوندکاری ہوتی ہے، جس کا وقت اور طریقہ کار ہوتا ہے۔
’میں نے 200 درخت لگا کر ایک تجربہ گاہ بھی بنا رکھی ہے جہاں میں سارا سال کام کرتا ہوں، اس وجہ سے میری پیوند کاری سو فیصد کامیاب رہتی ہے۔‘
’پیوند کاری کے لیے درخت کو کس چیز سے کاٹنا چاہیے یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔
’ہمارے لوگ درخت کو آری سے کاٹتے ہیں۔ خاص طور پر انگور کو بھی اسی طرح کاٹا جاتا ہے یا جو چین کی بنی ہوئی قینچی ہے اس سے کاٹتے ہیں۔
’یہ طریقہ کار انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس کے لیے مخصوص قینچی اور چھری کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو ہمارے علاقے میں دستیاب نہیں۔
’اسی لیے مجھے درخت کاٹنے والی قینچی اور پیوند کاری کا آلہ سوئٹزرلیںڈ سے منگوانا پڑا جو اب بھی ہمارے استعمال میں ہے۔‘