انڈیا کی ریاست پنجاب کے شہر موہالی کی ایک نجی یونیورسٹی میں ہاسٹل طالبات کی مبینہ طور پر نازیبا ویڈیوز بنانے اور شیئر کرنے کے معاملے پر طلبہ کے احتجاج کے بعد یونیورسٹی ہفتے تک بند کر دی گئی ہے، جبکہ پولیس نے ایک لڑکی سمیت تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق ہفتے کی شام چندی گڑھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم لڑکیوں کی باتھ روم میں بنائی گئی خفیہ ویڈیوز لیک ہونے کی افواہیں پھیلیں تو طلبہ نے کیمپس میں احتجاج شروع کر دیا۔
موہالی پولیس کے مطابق چندی گڑھ یونیورسٹی کی چھ طالبات نے ہاسٹل وارڈن کو شکایت کی کہ ایک ساتھی طالبہ نے ہاسٹل میں لڑکیوں کی خفیہ ویڈیوز بنائیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں۔
پولیس کے بقول ہاسٹل وارڈن کے سوال کرنے پر مذکورہ طالبہ نے ابتدا میں ویڈیوز بنانے سے انکار کیا، تاہم بعد ازاں الزام قبول کر لیا۔
پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گرپریت دیو نے صرف ایک ویڈیو لیک ہونے کی تصدیق کی، جو، ان کے مطابق، چندی گڑھ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرپریت دیو نے اتوار کی رات چندی گڑھ یونیورسٹی کیمپس میں میڈیا کو بتایا کہ کوئی دوسری ویڈیوز منظر عام پر نہیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ چندی گڑھ یونیورسٹی کے ہاسٹلز سے ایک طالبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اور پولیس نے ان کا موبائل فون بھی قبضے میں لے لیا ہے۔
گرپریت دیو نے مزید بتایا کہ مذکورہ طالبہ نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ اپنی ایک ویڈیو شیئر کی تھی، اور اس میں کوئی نازیبا مواد بھی نہیں پایا گیا۔
ویڈیوز کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد انڈین میڈیا کے مطابق بعض طالبات نے مبینہ طور پر خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی تھی، تاہم موہالی کے ڈی سی امیت تلوار نے ان خبروں کو افواہیں قرار دیا۔
چندی گڑھ یونورسٹی انتظامیہ نے بھی نازیبا ویڈیوز ریکارڈ ہونے کے دعووں اور طلبہ کی مبینہ خود کشیوں کی کوششوں سے متعلق خبروں کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یونیورسٹی اپنے طلبہ کے تحفظ کو سنجیدہ لیتی ہے۔
We are always with our students, be it their academic aspirations or their safety and well-being. We will leave no stone unturned to live it upto this commitment towards our students.
— Chandigarh University (@Chandigarh_uni) September 19, 2022
انڈین میڈیا کے مطابق پولیس نے اس معاملے میں اب تک یونیورسٹی طالبہ کے علاوہ دو دوسرے افراد کو بھی گرفتار کیا ہے۔
ٹی وی چینل زی نیوز کے مطابق ایک نوجوان کو شملہ میں روہڑو سب ڈویژن کے ایک گاؤں سے گرفتار کیا گیا، جبکہ دوسرے گرفتار شخص کی عمر 31 سال بتائی جاتی ہے۔
انگریزی اخبار دا ٹریبون کے مطابق دو نوجوانوں اور چندی گڑھ یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی گرفتاری نے پولیس کے اس دعوے پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے کہ یہ صرف ایک لڑکی کا اپنے دوست کے ساتھ ویڈیو شیئر کرنے کا معاملہ تھا۔
اتوار کی رات دیر تک چندی گڑھ یونیورسٹی کے کیمپس میں جاری رہنے والا احتجاج طلبہ نے ضلعی انتظامیہ، پولیس اور یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کی یقین دہانیوں کے بعد ختم کیا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس جی پی ایس بھولر اور ڈپٹی کمشنر امیت تلوار نے مظاہرین سے بات چیت میں کہا کہ واقعے کی تفتیش کے لیے ایک سینیئر خاتون آئی پی ایس افسر کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔
ریاست پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگوت مان، جو اس وقت سرکاری دورے پر جرمنی میں ہیں، نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
پنجاب کے ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن منیشا گلاٹی نے چندی گڑھ یونیورسٹی کیمپس کے دورے کے دوران کہا کہ کمیشن نے پنجاب کے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو لکھے گئے ایک خط میں معاملے کو سختی سے اور بغیر کسی سستی کے نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انڈیا کے نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے خواتین کے خلاف سائبر کرائم کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔