ٹین ایج میں مجھے اکثر اپنی شناخت سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کس لیبل یا کیٹگری میں آتی تھی، یہ مسلمان یا ایشیائی ہونے کا واضح احساس تھا جس سے مجھے خدشہ تھا کہ میں دوسرے لوگوں کو پریشان کر دوں گی۔
جب میں بڑی ہو رہی تھی تو مسلم دکھائی دینا ناقابل یقین حد تک محدود تھا، یہ اب بھی ہے۔ اکثر جب ٹی وی پر مسلمانوں کی نمائندگی کی جاتی ہے تو ہمیں دہشت گرد حملوں اور تشدد سے جوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ بیانیہ بدل رہا ہے لیکن ہم اس جگہ سے بہت دور ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہیے۔
نائن الیون کے بعد سب کچھ بدل گیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھاری پن اور تکلیف محسوس ہوئی۔ شہہ سرخیوں کا ایک سیلاب تھا جس نے مسلمانوں کو ایک خاص نقصان دہ رنگ میں پیںش کیا، جس نے مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم اور اسلامو فوبیا میں اضافہ کیا۔
بچپن کی چیزوں کو پیچھے مڑ کر دیکھنا میرے لیے مشکل تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں فٹ ہوتی ہوں، چاہے وہ سکول ہو یا گھر میں، ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا تھا جس سے میں خود سے پوچھتی تھی کہ میں کون ہوں، میں کہاں سے ہوں اور مسلمان ہونے کا اصل مطلب کیا ہے۔
میں اپنی ماں کے ساتھ سکول جانے سے کتراتی تھی کیونکہ انہوں نے مختلف لباس پہننے کا انتخاب کیا تھا۔ مجھے شرمندگی ہوتی تھی کہ وہ انگریزی نہیں بولتی تھیں اور مجھے ترجمہ کرنا پڑتا تھا۔ جب انہوں نے کوشش کی تو ان کا لہجہ مختلف تھا۔ بہت سے قریب آ کر کہتے تھے، ’ہاں ... معاف کیجیے؟ کیا آپ براہ مہربانی اپنی ماں سے کہہ کر وہ بات دہرا سکتی ہیں جو انہوں نے کہی تھی؟‘ لوگ پیٹرانیز کر رہے تھے، ان کی باتوں نے ہمیں باہر کے ہونے کا احساس دیا۔
میں ایک لامتناہی چکر میں بھاگتی رہی، اپنے تارکین وطن خاندان جڑوں سے چھپ کر اور یہ دکھاوا کرتی تھی کہ میں نام اور خون سے برطانوی ہوں۔ لیکن برطانوی ہونے کا اصل مطلب کیا ہے؟
یہ ملک تنوع، ثقافت اور امیگریشن کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، لیکن میں فرق میں خوبصورتی کو نہیں سمجھتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ فرق ہمیں بنائے اور باقیوں سے منفی طور پر دقیانوسی دکھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسے جیسے میں بڑی ہوئی، مجھے اس طاقت کا احساس ہوا جو پوری دنیا کے بہت سارے مسلمانوں میں ہے۔ میں سمجھ گئی تھی کہ ان رکاوٹوں کے باوجود جن کا میں مستقل طور پر سامنا کروں گی، حقیقت یہ ہے کہ بلاشبہ مجھے اپنے ساتھیوں کی طرح 10 گنا سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ میں اس مقام پر پہنچ جاؤں جس کی میں حق دار ہوں، مسلمان ہونے کا ایک فائدہ تھا - میری شناخت ہی میری طاقت تھی۔
سوشل میڈیا کی ترقی اور میڈیا میں سست پیشرفت کے ذریعہ، ہم نے مسلمانوں کی موجودگی کی صورتیں دیکھی ہیں لیکن ہم اس سے بہتر کام کرسکتے ہیں۔ منفی دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کے لیے میڈیا میں زیادہ صحیح مسلم نمائندگی کی ضرورت ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت ساری کوششوں کی بنیاد ابھی بھی لاعلمی ہے۔
نیٹ فلکس کے ایک شو میں، میں نے ایک مسلمان خاتون کو رمضان کے مقدس مہینے کا احترام کرتے دیکھا، وہ روزہ رکھ رہی تھی۔ یہ ممکنہ طور پر مثبت نمائندگی اس وقت برباد ہوگئی جب اس نے ٹکیلا شراب کے شاٹ سے روزہ توڑ دیا۔
میں نے مختلف جذبات کو محسوس کیا۔ میں حیران و پریشان رہ گئی تھی۔ اسلام میں شراب پینا ممنوع ہے۔ اس عکاسی نے صنعت میں ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں کی طرف سے دکھائی جانے والی چیزوں میں احتیاط کی کمی کو اجاگر کیا۔ میں نے اپنے ایک دوست کو یہ کلپ دیکھنے کے بعد ٹیکسٹ پیغام میں کہا کہ ’ہمیں فٹ ہونے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ٹی وی اور فلم میں مسلمان کرداروں کو بچانے یا مظلوم دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یہ معلوم کرنے میں مدد کرنے کے لیے کسی ’سفید فام نجات دہندہ‘ کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں حجاب پہننا چاہیے، یا ہمیں اپنے مذہب سے بچانا ہے۔ ہم نے اپنی اپنی راہوں پر چلنے کا انتخاب کیا ہے جیسا کہ اس دھرتی پر ہر شخص کو حق حاصل ہے۔
پاکستانی نژاد برطانوی اور ایمی ایوارڈ یافتہ اداکار رز احمد نے - یو ایس سی ایننبرگ انکلوژن انیشی ایٹو، دا فورڈ فاؤنڈیشن اور پلرز فنڈ کے اشتراک سے، میڈیا میں مسلمانوں کی غلط ترجمانی سے نمٹنے کے لیے دی مسلم ویزیبلٹی چیلنج کے نام سے ایک مہم چلائی ہے۔
مسلمانوں کے فلمی صعنت میں شمولیت کی اس کی مہم کا کہنا تھا کہ ’یو ایس سی ایننبرگ انکلوژن انیشی ایٹو کو 200 مقبول فلموں کے جائزے سے معلوم ہوا کہ صرف 19 میں محض ایک مسلمان کردار تھا۔ دیگر الفاظ میں ان 200 میں سے 181 فلموں میں کوئی مسلمان کردار تھا ہی نہیں۔‘
مسلمانوں کی ویزیبلٹی چیلنج کو معلوم ہوا کہ دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش 200 فلموں میں 8956 کردار تھے - لیکن ان میں صرف 1.6 فیصد مسلمان تھے۔ مسلمانوں کی درست نمائندگی کرنے کی جب بات آتی ہے تو اس انڈسٹری میں بے پناہ مسائل اور اعدادوشمار موجود ہیں۔ پسماندہ گروہ دیکھائے جانے کے مستحق ہیں۔
مسلم ویزیبلٹی چیلنج ترقی پسندانہ سوچ کی سمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ پسماندہ گروہوں کی صحیح نمائندگی کی جانب ایک قدم ہے۔
رز احمد نے ہاؤس آف کامنز کی تقریر میں کہا کہ ’لوگ جو ڈھونڈ رہے ہیں وہ ایک پیغام ہے کہ وہ یہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب بھی آپ اپنے آپ کو دیکھیں گے یہ ایک پیغام ہے جو آپ کو اہمیت دیتا ہے، کہ آپ قومی کہانی کا ایک حصہ ہیں۔‘
رز احمد نے کہا کہ ’میں اداکار بن گیا کیونکہ مجھے اداکاری پسند ہے۔ میں ایک اداکار بن گیا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری شناخت میری وضاحت کرے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ہم سب ہیں۔ میں کوئی بھی روپ دھارنے کے قابل ہونا چاہتا ہوں۔ میں وہ کام کرنے کے قابل ہونا چاہتا ہوں جو میرے سفید ہم پلہ کرتے ہیں۔‘
کیا اس کہانی کا حصہ بننے کا مطالبہ بہت بڑا ہے، اور اس بیانیے کو واپس حاصل کریں جو مسلمانوں کو ایک ڈبے میں ڈال دیتا ہے اور ہم پر غلط لیبل لگاتے ہیں؟ ہماری نسل یا مذہب سے قطع نظر، ہم سب مناسب طریقے سے دیکھے جانے اور نمائندگی کے مستحق ہیں۔
نوٹ: فائزہ ثاقب برطانوی صحافی اور شاعرہ ہیں۔
© The Independent