برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز کے سینیئر حکام نے کہا ہے کہ برطانوی مسلمان کرونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد میں شامل ہیں اور ان کے اس وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات خاص طور پر زیادہ ہیں۔
مسلمان برادریوں میں کئی افراد کے لیے یہ سب دل دہلا دینے والا ہے۔ میں بھی ان افراد میں شامل ہوں لیکن حیران کن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اس صورت حال کو زیادہ بڑے پیمانے پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان یہ محسوس کریں گے کہ انہیں موجودہ صورت حال میں حکومت کے ردعمل میں غیر اہم سمجھا جارہا ہے، الگ رکھا جا رہا ہے یا بھلا دیا گیا تواس کے اثرات وبا سے کہیں زیادہ دیر تک برقرار رہیں گے۔
بہت سے مسلمان بڑے خاندانوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ اکثر گھروں میں میرے خاندان کی طرح ایک ہی چھت تلے تین نسلیں رہتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے جن میں کرونا وائرس موجود ہو۔ یہ افراد معمر رشتہ دار کو وائرس منتقل کر سکتے ہیں (اور اکثر اوقات کریں گے)۔ جب وہ بچوں اور پوتوں پوتیوں کے ساتھ اور شاید بڑے خاندان میں قریب قریب ہو کر رہ رہے ہوں گے تو ایسی صورت میں بڑی عمر کا کوئی شخص اپنے آپ کو مؤثر انداز میں الگ تھلگ (آئیسولیشن) میں نہیں رکھ سکتا۔
ہم سب سماجی مخلوقات ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ مسلمان انتہائی سماجی سے بھی زیادہ سماجی ہوں۔ ہم اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ اکثر اوقات ایک ہی پلیٹ میں اور مشترکہ برتنوں میں کھاتے ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کے لیے سماجی قربت جیسا کہ ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ان کے روز مرہ رویے میں اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ ایک ہفتے قبل ایجاد ہونے والے ’سماجی دوری‘ کے عمل سے وہ مکمل طور پر اجنبی ہیں اور یہ ان کے لیے ایک بے ہودہ خیال ہے۔
یہ صورت حال برطانیہ کی 16 سو مساجد میں خاص طور پر ہے (صرف بریڈ فورڈ، جہاں میں رہتا ہوں، میں 130 مساجد ہیں)۔ اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے اور اگرچہ ممتاز برطانوی مسلمان تنظیموں جیسا کہ برطانیہ کی مسلم کونسل نے سعودی عرب، ترکی اور مصر کی طرح مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھیں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ برطانوی مساجد میں سے کئی کھلی رہیں گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہت سی مساجد نے بند کرنے کے مشورے پر توجہ بھی دی ہے لیکن نماز کی ادائیگی کے مقامات اب بھی کھلے ہیں جہاں معمول سے بھی زیادہ لوگ سما سکتے ہیں۔ ایسے مقامات خطرے میں اضافہ کر رہے ہیں۔
نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران (جس میں عام حالات میں زیادہ مسلمانوں کے نزدیک شریک ہونا ضروری ہے) نمازیوں کے قریب قریب کھڑے ہونے کی وجہ سے کرونا وائرس کا پھیلنا تقریباً یقینی ہے۔ ہمیں اس بات کا مسلم دنیا کے واقعات سے پتہ چلا ہے۔ ملائیشیا میں ایک مسجد میں ہونے والے صرف ایک مذہبی اجتماع کی وجہ سے کرونا وائرس پھیلا۔ یہ وائرس نہ صرف پورے ملائیشیا میں پھیل گیا بلکہ چھ دوسرے ملکوں تک بھی جا پہنچا۔
اس تمام صورت حال نے کرونا وائرس کومسلم برادریوں میں خاص طور پر ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔ ان برادریوں میں سے بعض، جو کہ بریڈ فورڈ جیسے محرومی کے شکار علاقوں میں رہتی ہیں، جہاں صحت کی سہولیات مسئلے سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
اِکا دُکا سپرمارکیٹیں اور حلال گوشت کی دکانیں جن پر بہت سے مسلمان ضرورت کی اشیا خریدنے کے لیے انحصار کرتے ہیں، یہ مارکیٹیں دوسری بڑی سپرمارکیٹوں کے مقابلے میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے معاملے میں کم قابل بھروسہ ہیں۔ اس صورت حال میں بہت سے مقامی مسلمان دکانداروں نے قیمتوں میں نمایاں اضافہ کرد یا ہے، حالانکہ ان کے گاہک برطانیہ کے غریب ترین لوگوں میں شامل ہیں۔
مسلمان برادریوں کے علاقوں میں بداعتمادی یا سادہ لفظوں میں کہا جائے تو حکومتی ہدایات سے لاعلمی پائی جاتی ہے۔ کرونا وائرس کے بارے میں این ایچ ایس کی سرکاری ویب سائٹ جو وزیراعظم کی روزانہ ہونے والی پریس کانفرنسوں کے دوران زیادہ دباؤ کا شکار ہو کر رسائی میں نہیں رہتی، بھی صرف انگریزی زبان میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سی اقلیتیں جن کی انگریزی اچھی نہیں اور وہ ’قرنطینہ‘ اور ’وبا‘ جیسے الفاظ نہیں سمجھ سکتیں وہ معلومات کے لیے غیرملکی یا سوشل میڈیا ذرائع پر انحصار کرتی ہیں۔
بلاگز، ٹک ٹاک یا ایشیائی یوٹیوبرز کو قومی بحران کے وقت برطانوی شہریوں کے لیے معلومات کا بنیادی ذریعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی اپنی حکومت کو ہونا چاہیے۔
یہ صورت حال خاص طور پر پناہ گزینوں، سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور حال ہی میں برطانیہ آنے والوں کے لیے ہے جن میں سیاسی پناہ کے لیے آنے والے زیرکفالت بچے بھی شامل ہیں، جن کے حوالے سے امکان یہی ہے کہ ان کی انگریزی زبان کی صلاحیت اوسط سے بھی کم ہے۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ایسے لوگ پہلے سے کسی صدمے یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہوں اور تقریباً لاک ڈاؤن کی صورت میں ان کی حالت مزید خراب ہو جائے۔
بحران میں اضافے کی صورت میں مسلمان برادریاں اس صدمے سے دوچارہو جائیں گی۔ ایک سو سے زیادہ افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی کا لازمی مطلب مسلمانوں کے جنازے کے اجتماع پر پابندی ہے۔ میں نے کبھی کوئی ایسا جنازہ نہیں دیکھا جس میں تین سو سے کم افراد شریک ہوں۔
بہت سے مسلمانوں کو پریشانی ہے کہ تیزی سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں ان کے والدین اور بزرگ بڑی تعداد میں موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور وہ انہیں مناسب طریقے سے دفن کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے اور ایسا اس وقت ہوگا جب ان مذہبی اجتماعات کو روک دیا جائے گا جو ان کے کفن دفن کرنے اور صدمہ برداشت کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
ان حالات میں جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، حکومت کی ہدایات واضح اور مربوط ہیں اور اب ان ہدایات کا مختلف زبانوں اور مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے قابل سمجھ ہونا بھی ضروری ہے۔
کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد کا امدادی پیکج اب بھی اس فنڈ سے کم ہے جو مالی بحران کے موقعے پر دیا گیا تھا۔ یہ بات یقینی ہے کہ بینک بیلنس شیٹوں کے مقابلے میں انسانی جانیں زیادہ اہم ہیں؟ ملک بھر میں مقامی حکام، فلاحی اداروں اوررضاکاروں کو فنڈ فراہم کیا جائے تاکہ وہ ان کمزور ترین طبقے کو خوراک، دوسرا سامان اور ضروری مدد فراہم کرسکیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔
اس صورت حال میں میرے علاقے میں آسانی سے دستیاب ایک ایپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر مربوط منطقی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمیں مترجموں سے لے کر معالجوں تک ہر چیز کی ضرورت ہے تاکہ کوئی کردار ادا کرنے کی پیش کش کرنے والوں کے مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ مسلمان برادریاں اپنا کردار ادا کریں گی لیکن انہیں حکومت کی معاونت لازمی طور پر حاصل ہونی چاہیے۔
کسی ہمسائے کی جسمانی ضروریات، صحت ، بنیادی ذمہ داری اور ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہنا ہی اسلامی ثقافت ہے۔ اس حقیقت میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی مہک بیماری ہمسائے کو منتقل نہ کی جائے، لیکن ہم ان اقدار کو اپنے تمام ساتھی برطانوی شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کام میں لا سکتے ہیں۔ ایسا اُسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ہم خود کو علیحدہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے آپ کو فعال بھی کریں تاکہ دوسروں کی مدد کی جا سکے۔
شادم حسین برطانوی حکومت کے اڈاپشن سٹیرنگ گروپ کے رکن اور مائی فاسٹر فیملی نامی تنظیم کے سی ای او ہیں۔
© The Independent