عمران خان نے ڈرامے کا مکالمہ مرزا غالب کا شعر بنا دیا

عمران خان نے پاکستان کے حالات پر ایک ٹویٹ میں ’مرزا غالب‘ ڈرامے کا ایک مکالمہ مرزا غالب کا شعر بنا کر شیئر کر دیا، مگر جب اس پر شور اٹھا تو کچھ دیر بعد ڈیلیٹ کر دیا۔

عمران خان کی 24 جولائی، 2022 کو ٹویٹ سے لیا گیا ایک سکرین شاٹ۔ یہ ٹویٹ بعدازاں ڈیلیٹ کر دی گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کی دوپہر ایک ٹویٹ میں پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات کے تناظر میں ایک بھارتی ڈرامے میں بولا گیا جملہ مرزا غالب کا شعر بنا کر پوسٹ کر دیا، مگر جب اس پر اعتراض ہوا تو انہوں نے یہ پوسٹ ہی ڈیلیٹ کر دی۔

وہ جملہ جسے عمران خان نے شعر بنا دیا، کچھ یوں تھا:' معلوم نہ تھا اتنا کچھ ہے گھر میں بیچنے کے لیے۔ زمین سے لے کر ضمیر تک سب بک رہا ہے۔ 

عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’جب کوئی قوم اپنا نظریہ اور اپنے وجود کا مقصد کھو دیتی ہے تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ مرزا غالب کے اس وقت کے کہے الفاظ جب ہم برطانوی راج کے غلام بننے جارہے تھے۔ امپورٹڈ حکومت کی جانب سے حکومتی تبدیلی کی امریکی سازش کے حالات پر پورا اترتے ہیں۔ 

عمران خان کی اس ٹویٹ پر اسامہ صدیق نامی صارف نے طنزیہ لکھا: ’یقیناً یہ غالب کا شعر ہے۔ اگر غالب اس سے انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے بھی خود کو بین الاقوامی سازشیوں کے ہاتھ بیچ دیا۔‘  

یہ ٹویٹ تقریباً آدھے گھنٹے تک سوشل میڈیا پر رہی لیکن اس کے بعد اسے ہٹا دیا گیا۔ لیکن کیا یہ شعر واقعی غالب کا تھا؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔

مرزا غالب نے ایسا کوئی شعر کبھی نہیں کہا البتہ بھارت میں مرزا غالب پر بننے والے ٹی وی سیریل میں، جس کے ڈائیلاگ معروف شاعر اور پروڈیوسر گلزار نے تحریر کیے تھے، مرزا غالب کا کردار ادا کرنے والے نصیر الدین شاہ نے ایک ڈائیلاگ ادا تھا جو کچھ یوں تھا: ’یہ کیسے کمپنی بہادر آئے ہیں؟ کہیں کوئی شہر بک رہا ہے، کہیں ریاست بک رہی ہے، کہیں فوجوں کی ٹکڑیاں بیچی جارہی ہیں، خریدی جارہی ہیں۔ یہ کیسے سوداگر آئے ہیں اس ملک میں؟

’سارا ملک پنساری کی دکان بن گیا ہے۔ معلوم نہ تھا اتنا کچھ ہے گھر میں بیچنے کے لیے زمین سے لے کر ضمیر تک سب بک رہا ہے۔'  

انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ظفر سید نے بھی اس حوالے سے بتایا: 'اس میں پہلی بات یہ کہ یہ تو شعر ہی نہیں۔ یہ تو اس گفتگو کا حصہ ہے جو مرزا غالب ڈرامے میں نصیر الدین شاہ نے بطور مکالمہ ادا کیا تھا۔

’اسی جملے کو عمران خان نے دو مصرعوں کی شکل میں لکھ کر شعر بنا دیا۔ یہ کسی بھی اصول کے مطابق بالکل شعر نہیں ہے۔‘

’دوسری بات یہ کہ مرزا غالب کے ہرگز یہ خیالات  نہیں ہیں۔ مرزا غالب ساری زندگی انگریزوں کے بڑے مداح رہے۔‘

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا اس کی دو مثالیں موجود ہیں۔ ایک جب سر سید احمد خان نے آثارالصنادید نامی کتاب لکھی تو اس میں انہوں نے مرزا غالب سے اس کتاب کا مقدمہ/ پیش لفظ لکھنے کا کہا جسے اس زمانے میں تقریظ کہا جاتا تھا۔

’مرزا غالب نے جو تقریظ لکھی وہ اس طرح کی تھی جسے سرسید احمد خان نے اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا تھا۔‘

ظفر سید کا کہنا تھا کہ آثارالصنادید دراصل مسلمانوں کے ہندوستان میں پرانے آثار، جن میں پرانی دہلی کی عمارتیں جو مغلوں کے دور کی یا اس سے پہلے کی تھیں یا جو اس زمانے کی تہذیب تھی اس بارے میں تھی۔

’غالب نے اپنی تقریظ میں لکھا کہ یہ کیا آپ پرانے زمانے کے قصے اٹھا کر بیٹھ گئے ہیں اور گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔ آپ انگریزوں کو دیکھیں وہ کیا نئی نئی چیزیں بنا رہے ہیں۔ غالب نے 1822 میں کلکتے کا سفر کیا تھا اور وہاں پر انہوں نے سٹیم انجن سے چلنے والے بحری جہاز دیکھے تھے جن سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ظفر سید کا یہ بھی کہنا ہے کہ غالب ہمیشہ اپنے خطوط میں، گفتگو میں اور جتنا بھی ریکارڈ موجود ہے اس میں انگریزوں کی عقل و دانش کی تعریفیں ہی کرتے رہے۔ اس حد تک کہ انہوں نے اس زمانے کی ملکہ وکٹوریہ جو تھیں ان کا قصیدہ بھی لکھا۔ ضمیر فروشی یا بغاوت کی باتیں غالب کی کسی تحریر میں نہیں ملتیں، یہ اس زمانے کا مزاج تھا ہی نہیں۔‘ 

سینئیر صحافی و تجزیہ کار مبشر بخاری نے بتایا: ’غالب نے بغاوت ہند یا جنگ آزادی 1857 کے تناظر میں 'دستنبو' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو کہ متروک فارسی زبان میں تھی۔

’اس کتاب میں غالب نے بغاوت ہند یا جنگ آزادی کے اسباب اور دہلی میں آنکھوں دیکھا حال بتایا۔ جہاں پر وہ دہلی میں برطانوی راج کی طرف سے کی گئی قتل و غارت پر غمگین دکھائی دیتے تھے وہیں پر جنگ آزادی اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار ان شر پسندوں کو قرار دیتے تھے جو لال قلعے میں موجود تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اور جب کچھ انگریز خواتین اور بچوں کو لال قلعے میں بادشاہ کے تحفظ میں دیا گیا تو ان شر پسندوں نے ان کو بہادر شاہ ظفر کے سامنے ہی قتل کر دیا۔

’غالب نے اس واقعے کو اپنی کتاب 'دستنبو' میں لکھا اور اسی واقعے کو قتل عام کی بنیاد قرار دیا۔

’یہی کتاب غالب کی جانب سے وائسرائے ملکہ برطانیہ کو بھی بھجوائی گئی اور اس کتاب کو متروک فارسی میں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ تر عوام  اس کتاب کو سمجھ نہ سکے اور غالب کی بھی بچت ہو جائے۔‘

عمران خان نے مکالمے کو شعر کیسے بنا دیا؟

بالی وڈ کے مشہور فلم ساز گلزار نے بھارتی ٹی وی دور درشن کے لیے 1988 میں ’مرزا غالب‘ نامی ایک ڈراما لکھا تھا جس میں مرکزی کردار نصیر الدین شاہ نے ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے میں گلزار نے غالب کو انقلابی بنا کر پیش کیا تھا جو تاریخ کے بالکل منافی ہے۔ 

عمران خان تو ظاہر ہے خود اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں چلاتے ہوں گے، ان کی ٹیم کے کسی شخص نے کہیں یہ ڈراما دیکھ لیا اور وہ ایک طرف تو نصیر الدین شاہ کو اصل مرزا غالب سمجھ بیٹھے، دوسرے انہیں عام گفتگو اور شعر و شاعری کے فرق کا بھی کوئی اندازہ نہیں۔ اس لیے انہوں نے فقرے کو شعر، اور وہ بھی مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا شعر بنا کر پیش کر دیا۔ 

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ادبی غلطیوں کا مرتکب ہوا ہو۔ اس سے پہلے ایک نظم علامہ اقبال کے نام سے بھی ٹویٹ ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک قول غلط طور پر خلیل جبران سے بھی منسوب کر چکے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان