راولپنڈی کے رہائشی ساجد (فرضی نام) پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر ہیں، لیکن 20 سال کی عمر کے بعد ان کے ذہن میں ان کی جنس کے تعین سے متعلق شکوک پیدا ہوئے۔
30 سالہ خواجہ سرا کی ان کے گرو (ٹرانس جینڈرز کے رہنما) نے سرکاری ریکارڈ میں جنس عورت کے طور پر درج کروائی تھی، جسے ساجد نے چند سال قبل سرکاری ریکارڈ میں تبدیل کروا دیا۔
ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’میری زندگی میں ایک مرحلہ ایسا آیا جب میں نے محسوس کیا کہ میں عورت نہیں ہوں، میرے اندر خواتین ٹرانس جینڈرز والی کوئی بات ہی نہیں تھی اور اسی لیے میں نے خود کو ٹرانس جینڈر عورت سے ٹرانس جینڈر مرد کے طور رجسٹر کروایا۔‘
پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ریم شریف نے ساجد کے کیس سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’یہ ایک انٹرسیکس کی عام سی مثال ہے، جس میں ٹرانس جینڈر شخص کی جینڈر (جنس) غلط درج کر لی جاتی ہے اور بعد ازاں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ تو مخالف جنس کا ٹرانس جینڈر ہے۔‘
انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ 2018 میں بننے والے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کو استعمال کر کے پاکستان میں کوئی شخص کاغذات میں اپنی مرضی کی کوئی بھی جنس لکھوا سکتا ہے۔
بقول ریم: ’ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ اس قانون کا تعلق صرف ٹرانس جینڈرز سے ہے اور صرف ایسے لوگ ہی اپنی جنس کو سرکاری ریکارڈز میں بدل سکتے ہیں اور ٹرانس جینڈرز کی حد تک یہ ایک نارمل بات ہے۔‘
نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے ریکارڈ کے مطابق 2018 کے بعد سے ملک میں تقریباً 30 ہزار ٹرانس جینڈر افراد نے سرکاری ریکارڈ میں خود کو مخالف جنس کے طور پر رجسٹر کروایا ہے۔
گذشتہ سال پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا کے سامنے رکھی گئی نادرا کی اس معلومات کے مطابق ساڑھے 15 ہزار سے زیادہ ٹرانس جینڈر مردوں نے خود کو خواتین کے طور پر رجسٹر کروایا، جبکہ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والی 12 ہزار سے زیادہ عورتوں کا مخالف جنس کی حیثیت سے اندراج ہو چکا ہے۔
ٹرانس جینڈرز پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے نقاد اور مخالفین نادرا کی معلومات کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ ایسا اس قانون کے آنے کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔
گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق مذکورہ قانون پر گرما گرم بحث چل رہی ہے، جس میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے عام صارفین کی نسبت سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکنوں کی جانب سے تیسری جنس کے قانون پر بحث میں زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق سے متعلق ایکٹ میں ترمیم پر بحث اور وفاقی شرعی عدالت میں اس کے خلاف درخواست کی سماعت کے باعث شروع ہوئی۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ میں ترامیم پیش کرنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں یہ قانون اسلامی تعلیمات اور پاکستان کی معاشرتی اقدار کے سراسر خلاف ہے، اور یہ ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادیوں میں سہولت کار ثابت ہو سکتا ہے۔
سینیٹ میں پیش کردہ ترمیم میں انہوں نے قانون میں سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کو صرف انٹرسیکس کے طور پر شناخت دینے اور جنس کی تبدیلی سے متعلق میڈیکل بورڈ کے قیام کو ضروری قرار دیا۔
ریم شریف، جو خود ٹرانس جینڈر ہیں اور اسلام آباد پولیس میں اہم عہدے پر فائز رہ چکی ہیں، انہوں نے اس بارے میں کہا کہ تیسری جنس کے حقوق سے متعلق قانون پر اعتراض کرنے والوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی ٹرانس جینڈر شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی اور سمجھ بوجھ کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں بننے والے ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق قانون میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کی کلاسیفیکیشن بالکل درست کی گئی ہے، اور اب اس میں ترمیم اس کمزور کمیونٹی کو ماضی کے مسائل کی طرف دھکیل دے گی۔
نادرا کے اعداد و شمار سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ریم شریف کا کہنا تھا کہ ان سے یہ تاثر لینا قطعاً غلط ہو گا کہ مرد اور خواتین اپنی جنس کا اندراج مرضی سے کروانے جا رہے ہیں۔
’یہ دراصل ٹرانس جینڈر افراد ہیں جو اپنی سمجھ اور مرضی کے مطابق اپنی جنس کی درستگی کے لیے نادرا کے پاس جاتے ہیں، اور جسمانی ضرورت اور ان کے احساسات کے مطابق خود کو مناسب جنس کے طور پر رجسٹر کرواتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں قانونی طور پر ٹرانس جینڈر افراد شادی کا حق نہیں رکھتے، اس لیے کسی تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے مرد کو خود کو عورت ظاہر کرنے سے پاکستان کے خاندانی نظام پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا، اور نہ ہی ہم جنس پرستی یا ہم جنس شادیوں کو فروغ ملے گا۔
ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی نایاب علی نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں سے ان کی جنسی شناخت کا فیصلہ واپس لینا اس کمیونٹی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہو گا۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کی جنس کا تعین وہ خود ہی کر سکتے ہیں، نہ کہ کوئی دوسرا شخص، ریاست یا ادارہ۔
انہوں نے کہا کہ قانون پاکستان کے ہر شہری کو صنفی تعین کا حق نہیں دیتا۔ بلکہ یہ سہولت اور حتیٰ کہ پورا قانون صرف ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق ہے، اور ان مخصوص افراد کو ہی صنفی شناخت کی آزادی دینا ہے۔
’مرد یا عورت کے کیس میں جنس بالکل واضح ہوتی ہے اور اس سسلسلے میں سوال کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن ٹرانس جینڈر کی جنس وہ شخص خود ہی طے کر سکتا ہے، اور اس کے پاس اس حق کا ہونا ضروری ہے۔‘
نایاب علی کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے غلط استعمال اور عمل درآمد میں غلطیوں کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں، اور ایسا اس مخصوص قانون کے ساتھ بھی ہے۔
تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ٹرانس جینڈر نایاب علی نے اس تاثر کو رد کیا کہ مذکورہ قانون کسی بھی طرح پاکستان میں ہم جنس پرستی کے فروغ میں مدد دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد تو شادی کر ہی نہیں سکتے، اور یہ قانون ٹرانس جینڈرز کے علاوہ کسی دوسرے شہری پر لاگو نہیں ہوتا تو ہم جنس شادیاں یا ہم جنس پرستی کی راہیں کیسے ہموار ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف بلیو وینز کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق قانون جلد بازی کا نتیجہ ہے، اور اس میں کئی زیادہ کمیاں موجود ہین جن کی اصلاح ضروری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگتو میں انہوں نے کہا کہ انڈیا میں ٹرانس جینڈرز کی شناخت کی غرض سے میڈیکل بورڈ ضروری ہے، جبکہ برطانوی پارلیمان بغیر میڈیکل بورڈ کے ٹرانس جینڈرز کے تعین سے متعلق قانون پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، اس لیے وہاں کوئی ٹرانس جینڈر بغیر میڈیکل بورڈ کاغذات میں اپنی جنس تبدیل نہیں کروا سکتا۔
نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق سپریم کورٹ سے منظور شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بعض ٹرانس جینڈر کی جنس کا تعین بچپن میں ہی ان کے والدین کر لیتے ہیں اور اس کے مطابق نادرا میں اپنی اولاد کو رجسٹر کرواتے ہیں۔
’دوسری صورت میں نادرا ٹرانس جینڈر کے گرو کے مہیا کردہ سرٹیفیکیٹ کے مطابق ٹرانس جینڈر شخص کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرانس جینڈر افراد کے معاملات کی ماہر ڈاکٹر ثنا یاسر نے بھی مذکورہ ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ پر تحفظات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ قانون سے ہم جنس پرستی یا ہم جنسی شادیوں کے فروغ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’حقیقت تو یہ ہے کہ شادی اور گھر بسانا ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل ہی نہیں ہیں، اور نہ وہ کبھی ان کے متعلق سوچتے یا منصوبہ بندی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈرز کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی شناخت ہے، جس کے بعد وہ اپنے لیے پناہ، یا گھر، طبی سہولتیں، روزگار اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول جیسی چیزوں کے خواہش مند ہوتے ہیں
ڈاکٹر ثنا یاسر نے مزید بتایا کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی شادی سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے، جبکہ زیر بحث قانون بھی کسی ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ ’تو پھر کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ اس قانون کے باعث ایک جنس سے تعلق رکھنے والوں کو شادی کا موقع مل سکے گا۔‘
ٹرانس جینڈرز کے معاملات میں گذشتہ پانچ سال سے کام کرنے والی ڈاکٹر ثنا یاسر نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کو اپنی جنس کے توین کا حق ہونا بالکل فطری اور انسانی حقوق کے فلسفے کے مطابق ہے، اور مذکورہ قانون بھی اسی مظہر کی یقین دہانی کرتا ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کو پاکستان کو وفاقی شرعی عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا ہے، جس کی آخری سماعت منگل کو اسلام آباد میں ہوئی۔
عدالت نے کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، ٹرانس جینڈر حقوق کی کارکن الماس بوبی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے فریق بننے کی درخواستیں قبول کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے انٹر سیکس (پروٹیکشن آف) رائٹس بل کے نام سے ایک نیا قانونی بل پارلیمان کے ایوان بالا میں متعارف کروایا ہے، جسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔
سینیٹر محسن عزیز کے مجوزہ قانون میں ٹرانس جینڈر افراد کے بجائے انٹرسیکس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جو ابتدائی قانون کے ناقدین کے خیال میں ایک غلط تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کا پوری یا صحیح انداز میں احاطہ نہیں کرتا۔
ٹرانس جینڈرز سے متعلق قانون میں کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 (یا خواجہ سرا افراد تحفظ حقوق ایکٹ 2018) کے نفاذ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان مٹھی بھر ممالک میں ہو گیا جہاں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، کام کی جگہوں، دوسرے عوامی مقامات اور وراثت کے حصول میں حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
مذکورہ قانون پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی شناخت فراہم کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کے لیے اقدامات وضع کرتا ہے، جبکہ مقامی حکومتوں پر اس کمیونٹی کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ ٹرانس جینڈرز کے سکولوں، کام کی جگہ، نقل و حمل کے عوامی طریقوں اور طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق سے دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنے اور حکومت کو جیلوں یا حوالاتوں میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔
قانون میں ٹرانس جینڈر اشخاص کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تین اقسام انٹر سیکس، خنثہ اور ٹرانس جینڈر (مرد یا عورت) میں تقسیم کیا گیا ہے۔