سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی مخالفت کر دی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر کہنا تھا: ’ان معاملات کو گلی محلوں میں کیوں زیر بحث لایا جاتا ہے؟ فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے، آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کا ایشو ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پرویز اشرف کا کہنا تھا: ’سیاسی جماعتیں اسے موضوع بحث کیوں بنانا چاہتی ہیں؟ پاکستان کی فوج کسی ایک جماعت کی فوج نہیں ہے۔‘
صدر عارف علوی کے آرمی چیف اور آئین سے متعلق ایک حالیہ بیان پر ردعمل میں ان کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا اسے کیوں کوئی سیاست کی نذر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر کوئی کرتا ہے تو وہ دانستہ یا نادانستہ پاکستان سے دشمنی کر رہا ہے۔ اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
’آپس میں سیاست کریں لیکن فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ یہ بڑی واضح پالیسی ہونی چاہیے۔‘
اس سوال پر کہ چیف آف آرمی سٹاف کو ملازمت میں توسیع ملنا شاید وقت کی ضرورت ہو سکتی ہے، پر سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا: ’وقت کی ضرورت کا تعین ہوتا ہے۔ تعیناتی اور ایکسٹنشن ہمارے اندرونی معاملات ہیں۔ یہ پاکستان کے سٹریجک معاملات ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے اور وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔
’ان پر میڈیا پر کیوں بحث کرتے ہیں؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نظام اور ریاست کے معمول کے فیصلے ہیں۔‘
انہوں نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنے کے بعد آرمی چیف کو تعینات کرنے کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’جب سیاسی جماعتوں میں تعیناتیاں لے آئیں گے تو اس سے زیادہ پھر کیا سیاسی مسئلہ بنائیں گے۔‘
سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ڈائیلاگ کے لیے پارلیمان کا پلیٹ فارم استعمال کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق ڈائیلاگ سے کبھی انکار نہیں کرنا چاہیے، یہی معاملات کو حل کرنے کا خوبصورت راستہ ہے۔ اس وقت ملک میں ایک ہی راستہ ہے کہ تمام افراد غیر ضروری سیاست کو چھوڑ کر ملک کے مستقبل کے لئے سر جوڑنے چاہیے۔
’سیاسی جماعتیں جس وقت ڈائیلاگ کرنا چاہیں کر سکتی ہیں۔ بطور سپیکر چاہوں گا کہ تمام معاملات باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوں اور ملک میں افرا تفری ختم ہو۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ اگر امریکی سائفر کی تحقیقات کی جائیں تو اسمبلی میں واپس آ سکتے ہیں، اس پر پرویز اشرف نے کہا ہے کہ سائفر کی تحقیقات کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہیں۔
’تحقیقات کروانا حکومت کا کام ہے۔ عمران خان کا مطالبہ ہے تو وہ حکومت اور ان کے مابین ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے اندر عوام کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملے پر پارلیمان میں ہی بات کرنی ہو گی۔ یہ غلط تاثر ہے کہ اگر کوئی حکومت میں ہو تو پارلیمان میں آئے گا اور کسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ جائے اور اتحادی چھوڑ جائیں تو ’پارلیمان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔‘
ان کے بقول یہاں ’ہم حکومت میں نہیں تو کسی کو حکومت نہیں کرنے دیں گے‘ کی روش چل پڑی ہے۔ یہ گلہ ضرور ہے کہ اگر آپ نے اکثریت کھو دی تھی تو آپ پارلیمان میں آتے۔ ان جمہوری رویوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں دیے گئے استعفوں سے متعلق ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد اگلے لائحہ عمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ استعفی پیش کیے جانے کے بعد سپیکر پر اس کی جانچ پڑتال کرنا لازم ہے۔
’سپیکر مکمل اطمینان کرے کہ استعفیٰ کسی دباؤ میں نہیں مرضی کے مطابق دیا گیا ہے۔ قوائد و ضوابط کے مطابق اس رکن کو بلایا جائے گا۔ اگر مجھے معلومات آتی ہیں کہ اسے اس عمل کے لئے مجبور کیا گیا ہے تو میں اس کا استعفیٰ منظور نہیں کروں گا۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ جب انہوں نے پی ٹی آئی اراکین کو استعفوں کی تصدیق کے لئے بلایا تو پتہ چلا ان کو ’پارٹی لیڈرشپ نے تصدیق کے لیے جانے سے منع کر دیا ہے۔ انہیں کہا گیا ہے کہ جو جائے گا اسے جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
’چند ماہ قبل پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جب ان سے استعفے لیے گئے تو بتایا گیا کہ اگر آپ نے استعفے نہ دیے تو ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپیکر کے مطابق: ’یہ بہت بڑا ثبوت ہے کہ استعفے پریشر میں دیے گئے۔ چند افراد نے خوشی سے استعفے دیے ہوں گے لیکن جن افراد کے بیانات اخبارات میں موجود تھے ان سے پوچھنے پر پتہ چلا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے استعفے دیے ہی نہیں۔‘
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ اگر استعفے خوشی سے دیے گئے ہوتے تو پی ٹی آئی اراکین کو ان سے ملاقات میں کیا مسئلہ ہے؟
’چار ماہ کا گزر جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حالات کے مطابق بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کچھ معاملات سپیکر اور اراکین کے درمیان ہوتے ہیں۔ بہت سارے اراکین فون کر کے کہتے ہیں کہ وہ استعفے دینے کے لئے تیار نہیں اور نہ پارلیمنٹ لاجز چھوڑنے کو تیار ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے کم مارجن سے جیتنے والے حلقوں میں الیکشن کروانے اور مزید ایسے ہی حلقے مارک کیے جانے سے متعلق تاثر پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلط تاثر ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں جا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
حالیہ دنوں میں وزیر اعظم ہاوس سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس بھی سامنے آئی ہیں جن میں سے ایک میں استعفوں کے معاملے پر بات چیت کی گئی ہے۔ ان آڈیو لیکس میں مبینہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ مخصوص استعفے قبول کرنے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا ہے: ’اگر میرے ساتھ کوئی اس معاملہ پر بحث کرے تو اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن اگر اپنے گھر میں بیٹھ کر کوئی بات چیت کر رہا ہے، جو میرے علم میں بھی نہیں ہے، اس پر جواب دینے سے قاصر ہوں۔ میں نے نہ سنی ہے اور نہ میرے علم میں ہے۔‘