اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پیر کو پاکستانی نژاد کینیڈین شہری سارہ انعام کے قتل کیس میں ملزم شاہ نواز کا تین روزہ جبکہ ان کے والد اور صحافی ایاز امیر کا ایک دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
دوسری ضلعی عدالت نے ایاز امیر کی اہلیہ ثمینہ شاہ کی 50 ہزار روپے کے مچلکوں پر تین روز کے لیے عبوری ضمانت منظور کر لی۔
آج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایاز امیر اور شاہ نواز امیر کو سینیئر سول جج عامر عزیز کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
سماعت سے قبل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس حکام ملزم کو کچہری لا چکے ہیں لیکن کمرہ عدالت میں پیش نہیں کر رہے کیونکہ پولیس کے مطابق میڈیا بہت زیادہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’اب میڈیا تو شام تک نہیں جائے گا لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ نائب کورٹ کو ہدایت کی جائے تاکہ ملزم کمرہ عدالت میں پیش ہو۔‘
سماعت شروع ہوئی تو تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایاز امیر کو مقتولہ کے والدین نے کیس میں نامزد کیا ہے۔ ’مقتولہ کے والدین کہہ رہے ہیں کہ ایاز امیر قتل کی سازش میں ملوث ہیں۔ انہوں نے خفیہ نکاح کر رکھا تھا۔‘
عدالت نے پولیس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ایاز امیر سے استفسار کیا کہ آپ کا وکیل کون ہے؟ تو ایاز امیر نے جواب دیا کہ وہ خود دلائل دیں گے۔
انہوں نے عدالت میں دلائل دیے کہ انہیں جب قتل کا فون پر پتہ چلا تو وہ چکوال میں تھے۔
’میں نے آئی جی اسلام آباد کو فون کیا۔ ایس پی رورل کو کال کی۔ مجھے خدشہ تھا کہ وہاں کوئی زخمی نہ ہو۔ میں نے ایس ایچ او سے رابطہ کرکے فارم ہاؤس کا راستہ بتایا۔‘
ایاز امیر نے مزید کہا کہ ان کے خلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں، کوئی مصنوعی کہانی بھی نہیں۔
’میں نے بیٹے کی والدہ سے کہا کہ انہیں بھاگنے نہیں دینا۔ ایسے کیسز میں لاشیں غائب ہو جاتی ہیں کیا کچھ ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس میں بڑے فیئر ہو کر چل رہے ہیں۔ ’میرا فون پولیس کے قبضے میں ہے، میں کل ریمانڈ پر رہا، پولیس نے کچھ نہیں پوچھا۔‘
انہوں نے کہا کہ جو کچھ اس کیس میں ہو رہا ہے آئندہ کوئی تفتیش میں تعاون سے پہلے سوچے گا۔
’پھر یہ کوشش کی جائے گی کہ پراسیکیوشن کو کس طرح مس لیڈ کیا جائے۔‘
ایاز امیر نے کہا کہ ’پولیس سے پوچھیں کل سے آج تک وقوعے کے بارے میں کوئی ایک چیز بھی پوچھی؟ میری دو روز قبل گرفتاری ہوئی یا تو بتا دیں کہ میرے فون سے ان کو کچھ ملا ہے۔ یہاں تو ان کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ ان کو کیا کیا چیز ملی ہے۔ ایس ایچ او نے پچھلی سماعت پر بتایا تھا کہ میں نے ہی ان کو بتایا تھا۔‘
آئی جی پولیس کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کے ورثا نے ان کے کردار کا بتایا ہے، یہ معاملہ شادی سے شروع ہوا۔ ’مقتولہ کے والدین آج کل میں پہنچ جائیں گے، ان کے پاس بھی ثبوت ہوں گے۔‘
اس پر ایاز امیر نے کہا کہ صرف یہ کہہ دینا کہ شادی ہوئی تھی وہ آرہے ہیں یہ تو ساری ہوائی باتیں ہوں گی، شادی میں جو سازش ہوئی ہے اس کی بنیاد تو کوئی بنائیں۔ مقتولہ اور ملزم دونوں کی عمریں 37 سال کے ہیں۔ پولیس صرف مفروضوں پر بات کر رہی ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ شاہ نواز امیر کے وکیل کون ہیں تو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کی طرف سے ابھی تک کوئی وکیل نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد عدالت نے شاہ نواز اور ایاز امیر کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں شاہ نواز کا تین روزہ جبکہ ان کے والد کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔
دوسری جانب، ایاز امیر کی اہلیہ ثمینہ شاہ نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے عدالت میں عبوری ضمانت دائر کی۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ملزمہ کا نام مقتولہ کے چچا چچی نے نامزد کیا، ملزمہ کئی سالوں سے جائے وقوعہ فارم ہاؤس کی رہائشی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ شاہ نواز نے قتل سے قبل مقتولہ کی رخصتی کے لیے انہیں وٹس ایپ پر میسج کیا۔
’شاہنواز نے قتل کے بعد صبح نو بج کر 12 منٹ پر بزریعہ فون وقوعے کے متعلق آگاہ کیا۔ والدہ کمرے کی طرف دوڑیں لیکن تب تک مقتولہ سارہ انعام قتل ہو چکی تھیں۔‘
درخواست میں کہا گیا: ’شاہ نواز کو کمرے میں بیٹھنے کو کہا، تب تک والد نے پولیس کو آگاہ کر دیا تھا۔ اسلام آباد پولیس چند منٹوں میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔
’نامزد ملزمہ ثمینہ شاہ کا واقعے سے کوئی تعلق نہیں، وہ چشم دید گواہ بھی نہیں۔ ثمینہ شاہ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔‘
اس پر ضلعی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج سہیل نے تین روز کے لیے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے انہیں 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔