’انوکی کے خلاف میچ کھیلنے کے لیے محمد علی کلے کو 60 لاکھ ڈالر تک کی آفر ہوئی۔ علی نے یہ میچ کھیلا کیوں کہ وہ ان دنوں ازدواجی زندگی کے مسائل سے گزر رہے تھے اور طلاق کی صورت میں بڑی رقم ان کے ہاتھ سے چلی جانی تھی۔ وہ نیشن آف اسلام (افریقن امریکی مسلمانوں کی ایک سیاسی تنظیم) کی مالی مدد بھی کر رہے تھے۔‘
’علی ورسز انوکی‘ نامی کتاب کے مصنف جوش گراس لکھتے ہیں کہ ’1976 میں انوکی سے یہ میچ کھیل کر محمد علی اپنے مالی مسائل کا حل چاہتے تھے۔‘
باکسنگ کی دنیا میں یہ مقابلہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیونکہ جاپان سے تعلق رکھنے والے انٹونیو انوکی ایک فری سٹائل ریسلر تھے جب کہ محمد علی کلے امریکی باکسر— باکسنگ اور ریسلنگ کا جوڑ کیسے پڑے گا؟ اس معاملے پر ہر طرف تبصرے ہو رہے تھے۔
دوسری عالمی جنگ اور پرل ہاربر کے بعد ویسے ہی جاپانیوں کے جذبات امریکہ کے خلاف بہت بھڑکے ہوئے تھے۔ انوکی کے لیے اس میچ کی اہمیت اس تناظر میں زیادہ تھی۔
میچ کے لیے اصول ایک رات پہلے بنائے گئے، جس میں اہم چیزیں یہ تھیں کہ مخالف کے جبڑے پر مکا نہیں مارنا، سر پر لات نہیں مارنی اور دھوبی پٹکا نہیں مارنا۔
لڑائی کے اصولوں میں سب سے اہم چیز جو فراموش ہوئی وہ یہ تھی کہ ’لو کک (low kicks)‘ مارنے پر کسی کی توجہ نہیں گئی۔
دیکھنے والوں کے لیے یہ بہت عجیب منظر تھا جب تقریباً سارے راؤنڈز میں انوکی زمین پر لیٹ کر محمد علی کا مقابلہ کرتے رہے اور محمد علی انہیں ’مردانگی کے طعنے‘ دے دے کر اٹھنے کے لیے کہتے رہے۔
انوکی اٹھتے تو انہیں محمد علی کلے کے مکوں کا سامنا کرنا پڑتا جبکہ علی طعنے تو دیتے رہے لیکن انہوں نے سارے راؤنڈز میں انوکی کی 70، 80 لاتیں اپنی پنڈلیوں پر برداشت کیں۔
محمد علی بمشکل چار پانچ مکے مار پائے۔ باکسنگ رپورٹر مارک کریم کی یادداشتوں کے مطابق ’یہ شدید ڈل میچ تھا۔ ایسا کہ جیسے آپ کسی نائی کو بال کاٹتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔‘
15 راؤنڈز اور تقریباً ایک گھنٹے بعد مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا۔ علی جیتے نہ انوکی۔
جاپان اور امریکہ دونوں طرف تماشائیوں کو آگ لگی ہوئی تھی کہ میچ دکھانے کے نام پر ان کے ساتھ ہوا کیا۔
نقصان بہرحال علی کو واقعی ہوا تھا۔ جوش گراس لکھتے ہیں:
’لوگوں کو بے شک سمجھ نہیں آئی ہو گی کہ یہ میچ ہے کیسا لیکن اصل میں ساری گڑبڑ مقابلے کے اصول طے کرنے میں ہوئی۔ محمد علی کو مسلسل اپنی ٹانگوں پر لاتیں (Low Kicks) سہنا پڑیں اور ایک ایسا کھلاڑی جس نے پنڈلیوں تک کسے ہوئے سخت باکسنگ شوز پہنے ہوں، یہ اس کے لیے شدید تکلیف دہ تھیں (یعنی محمد علی کے پاس پیروں کو حرکت دینے کی گنجائش اوپر تک چڑھے جوتوں کی وجہ سے کم تھی۔)‘
’میچ کے بعد لاکر روم میں محمد علی تکلیف کی وجہ سے اپنی ٹانگوں کو مسلسل ہلا جلا رہے تھے۔ سوج کر ان کی ٹانگیں دوگنے سائز کی ہو گئی تھیں۔ ان کی ٹانگوں پر بہت سارے سرخ نشان تھے اور اگلے دن تک وہ مزید پھول چکی تھی۔‘
اگلے دن علی نے پریس کو بیان دیا: ’میں ہرگز یہ لڑائی نہ لڑتا اگر مجھے علم ہوتا کہ انوکی نے یہ کرنا ہے۔‘
اور ’یہ‘ سے ان کی مراد سارے مقابلے میں لیٹے رہنے اور لو ککس تھیں۔
بعد میں نیویارک ٹائمز کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے انوکی نے اقرار کیا کہ ’میں نے جیتنے کی پوری کوشش کی لیکن چونکہ یہ ایک جعلی مقابلہ نہیں تھا اس لیے لوگوں کو بور لگا۔
’اگر میں لیٹے رہنے کی بجائے کھڑا ہو جاتا اور علی سے مار کھاتے ہوئے ہار جاتا تو تماشائیوں کے لیے بہرحال وہ منظر زیادہ پرجوش ہوتے۔‘
یہ مقابلہ علی اور انوکی میں ساری زندگی کی دوستی بھی کروا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انوکی نے 1998 میں جب اپنا آخری ریسلنگ میچ کھیلا تو محمد علی کلے ان کے اعزاز میں وہاں موجود تھے۔
‘علی ورسز انوکی‘ کے مصنف جوش گراس نے کہا: ’40 سال بعد یہ چیز واضح ہونا شروع ہوئی کہ بظاہر اس بور میچ کی ریسلنگ اور مکس مارشل آرٹ میں کیا اہمیت تھی۔‘
یہ حقیقت ہے کہ اس میچ کے بعد جاپانی پرو ریسلنگ اور مارشل آرٹ کو بڑے پیمانے پر دنیا جان پائی کیونکہ اس سے پہلے باکسنگ ایک عالمی کھیل تھا جب کہ ان دو جاپانی کھیلوں کو بہت سے ممالک تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
آج 79 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے انوکی جاپانی سیاست کا بھی حصہ رہے اور شمالی کوریا سے امن مذاکرات کے لیے انہوں نے 30 سے زیادہ دورے کیے۔
1943 میں پیدا ہونے والے کانجی انوکی نے برازیل میں 17 سال کی عمر میں اپنا پروفیشنل نام ’انٹونیو انوکی‘ رکھتے ہوئے پہلا ریسلنگ میچ کھیلا، جہاں رکیڈوزان نامی ’جاپانی بابائے ریسلنگ‘ نے ان میں چھپا جوہر تلاش کر لیا۔
انوکی پاکستان میں اپنے اس تاریخی مقابلے کے لیے بھی مشہور رہے، جس میں انہوں نے اکرم عرف اکی پہلوان کا چیلنج قبول کیا تھا اور پاکستان آ کر 1976 کے آخری ماہ نہ صرف اکی پہلوان کو شکست دی بلکہ انوکی نے ان کا کندھا بھی اتار دیا۔
جیک شینن کی کتاب ’Wrestling and the Roots of Ultimate Fighting‘ میں دونوں میچوں کی اہمیت پر جب امریکی ریسلر جوش بینیٹ سے ان کی رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا:
’میرے خیال میں علی سے انوکی کا مقابلہ اہم تھا کیونکہ اس کی وجہ سے پروفیشنل جاپانی ریسلنگ کا دنیا بھر میں نام ہوا لیکن رولز سخت ہونے کی وجہ سے انوکی کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ دوسری طرف اکرم پہلوان سے ہونے والا میچ دیکھیں تو وہ صرف اتنا سبق دیتا ہے کہ انسان کو اپنے خاندانی نام پر نہیں اترانا چاہیے۔ ضروری نہیں آپ اتنے ماہر ہوں جتنے آپ کے بڑے تھے۔ انوکی اکرم پہلوان سے اس کی اپنی شرطوں پہ لڑا اور ڈبل رسٹ لاک کے داؤ سے اس کا بازو توڑ کر واپس آیا۔‘
اسی مقابلے پر جب ملتان سے تعلق رکھنے والے ریسلنگ پروموٹر منظور پہلوان سے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’اکی پہلوان اور انوکی کا مقابلہ ہی کوئی نہیں بنتا تھا۔
’ان کی لڑائی کے الگ اصول ہیں، ہمارے جدا ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہاکی اور فٹ بال کا میچ ہو تو کون جیتے گا؟‘
’پھر اس وقت اکی پہلوان پچاس سال کی عمر کے آس پاس تھا، شوگر کا مریض تھا، اس بے چارے کو اس کے پروموٹر سلیم صادق نے مال کمانے کے لیے استعمال کیا۔‘
’اکی کو یہ کہا گیا تھا کہ مقابلہ برابر کیا جائے گا۔ بعد میں شرم کے مارے بے چارے کچھ بول ہی نہیں سکے۔ اکی پہلوان جوانی میں انوکی سے لڑتا تو اسے اٹھا کے ٹوکیو پھینک دیتا۔‘