دیکھ کر نہیں چلتا، اندھا ہے کیا؟ آنکھیں ہیں یا بٹن؟
بھائی غلطی سے ہاتھ لگ گیا، کیوں غصہ کر رہا ہے؟
غلطی سے ابے ایک تو دھکا دیا، اوپر سے بھرم دے رہا ہے، ایک ہاتھ پڑے گا بتیسی باہر آجائے گی۔
تماش بین جمع ہوئے ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا ہوا؟ تیسرا گٹکے کی پچکاری اچھالتا ہوا بولا، پتہ نہیں شاید گالی دے رہا تھا اسی لیے لڑ پڑے۔ چوتھا بولا چھوڑ یار اپنے کو کیا، ’لڑنے دو سالوں کو‘۔
فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے دو بندے آپس میں لڑے باقی تماشا دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ پہلے کسی معمولی تکرار پہ راہ چلتے لوگ صلح صفائی کرا دیا کرتے تھے، اب چسکے لیتے ہوئے یا شیخ اپنی اپنی دیکھ کہہ کر پتلی گلی پکڑ لیتے ہیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلی عدم برداشت، تحمل کی کمی، ایک دوسرے کی بات سننے کی رواداری ختم ہونے کی وہ تصویر ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہر گلی، نکڑ، فٹ پاتھ یا سڑک پہ نظر آتی ہے۔
ہم بدتمیز ہجوم ہیں۔ ہجوم اور بھیڑ بدتمیزی پہ اترتے ہیں۔ گھر کی دہلیز سے باہر نکلیں تو اپنے رویوں، لہجوں اور انداز سے ہم ہجوم ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ صبح، دوپہر، شام ہو یا رات ہم پر ہر وقت یہی کیفیت طاری رہتی ہے۔ چاہے سڑک ہو، ہسپتال ہو، بازار ہو، ریلوے سٹیشن، ائرپورٹ یا پھر ایوان ’منہ سے کف نکلتے ہیں، آنکھوں سے چنگاریاں اور زبان سے گالیاں۔‘
صبح صبح بچوں کو سکول چھوڑنے نکلیں تو سڑکوں پہ طوفان بدتمیزی اپنے عروج پہ نظر آتا ہے۔ جس سڑک سے جانا ہو وہاں سے گاڑیوں کی قطاریں الٹی آ رہی ہوتی ہیں۔
سیدھا جانے والا اپنی نظروں میں شرمندہ ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ توغلط نہیں۔ سکول گیٹ کے سامنے گاڑی لگانے کا مقابلہ اور دوسرے کو راستہ نہ دینے کا منظر دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ کو بھی اسی کلاس میں داخلہ دلا دیا جائے۔ ماسٹر صاحب کے مولا بخش سے ایسی دھنائی کی جائے کہ سارے بھولے سبق پھر سے یاد آجائیں۔
نظم و ضبط کی پابندی ایک طرف جن کو بنیادی اخلاقی اصول ہی بھول گئے ہوں وہ کس منہ سے دعوی کرتے ہیں کہ وہ ملک کے سب سے بڑے اور باشعور شہر کے تعلیم یافتہ شہری ہیں۔
یہی نام نہاد پڑھے لکھے جب گاڑیاں لے کر سڑک پہ نکلتے ہیں تو جنگل کے جانور بھی شرمندہ ہوکر بھاگ جاتے ہیں کہ ہم تو بس نام کے ہی جنگلی ہیں، یہ دو پیروں کی مخلوق تو چوپایوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔
کوئی رفتار کی مار مارتا ہے، کوئی ہائی بیم سے سامنے والے کو شکار کرتا ہے، کوئی ہارن پہ ہاتھ رکھ کر آگے چلنے والے کے اعصاب کا امتحان لیتا ہے۔ جو سگنل کی سرخ بتی پہ چلنا اپنی شان اور ہری پہ بھاگنا اپنا حق سمجھتے ہیں، جو کسی کو سڑک پار کرتے دیکھ کر ایکسیلریٹر اور دبا دیتے ہیں۔
گھر جا کر پیر پسار کر بچوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے اور بیوی کو آنکھیں دکھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا لیکن سڑک پہ ایسا انداز اپناتے ہیں جیسے چاند پہ جانے والی ناسا کی گاڑی ہماری وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔
شاپنگ سینٹر میں ٹرالی بھگانا، پیچھے آنے والے کو راستہ نہ دینا، بلاوجہ کسی بھی ریک کے آگے گھنٹوں لگانا، ہر دو منٹ کے بعد ایکسکیوزمی، ایکسکیوزمی کی صدائیں نکال کر وہاں موجود خواتین ہاکرز کو زچ کرنا، اپنی تفریح کے لیے دوسروں کی زندگی اجیرن بنانا یہ بحیثیت ہجوم ہماری خاصیت بن چکی ہے۔
سپر سٹور کا کیش کاؤنٹر ہو، بس سٹاپ ہو، ریلوے سٹیشن یا پھر ائیرپورٹ، ہر مقام پر اپنے نشان عظمت چھوڑنے میں ہم ریکارڈ توڑتے ہی نظر آتے ہیں۔ قطار بنانا تو دور کی بات ہم سیدھے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ اوئے اوئے کی آوازیں مارنا، ابے کیا ہاتھوں میں لقوہ آگیا کے طعنے کسنا، بس نہیں چلتا کہ آگے کھڑے لوگوں کے کندھوں پہ پیر رکھ کر کاؤنٹر تک پہنچیں اور اپنا مطلب نکال کر چلتے بنیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹر سٹی کوچز میں بس ہوسٹس کو دیکھ کر آنکھیں پتلیوں سے باہر نکل آتی ہیں، بہانے بہانے سے بلا کر کبھی چپس، کبھی پانی مانگنے کی اداکاری کی جاتی ہے، لیکن چلو بھر پانی نہیں ملتا کہ اس میں ڈوب مریں۔
جہاز میں ائیر ہوسٹس نظروں سے اوجھل ہوجائے تو ٹنگ ٹونگ ٹنگ ٹونگ کرکے اس کی ڈیوٹی مصیبت بنا دیتے ہیں۔ بین الاقوامی ائیرلائنز کی فضائی میزبان تو دل پہ جبر کرکے اپنا وقت گزار لیتی ہیں لیکن سلام ہے ہماری پاکستانی ائرہوسٹسز کو جو ایسوں کو آپے سے باہر ہونے سے پہلے ہی واپس اوقات پہ لے آتی ہیں۔
لیکن یہی ’بدتمیز ہجوم‘ کراچی سے دو گھنٹے کی دوری پر دبئی ائر پورٹ پہنچے تو ایسا لگتا ہے کسی اور سیارے پر پہنچ گیا ہے۔ سارے آڑے ٹیڑھے، تیس مار خان تیر کی طرح سیدھے اٹینشن ہوچکے ہوتے ہیں۔ وہاں کے شیخوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ پاکستان سے لاتوں کے بھوتوں کی آمد ہوتی ہے۔
ڈنڈے کے زور اور مخالفے کے خوف سے سب کے سب قانون پسند بن جاتے ہیں۔ منہ سے پھول جھڑنے شروع ہوجاتے ہیں، نظریں اتنی نیچی ہوجاتی ہیں کہ امیگریشن آفیسر بھی کہتا ہے آنکھ اوپر کرکے سکین کراو۔ وہاں اوکے، یس، نو پرابلم، ہیو آ نائس ڈے کے علاوہ زبان سے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ قطار توڑنا تو دور کی بات سوچنے پر بھی ٹھنڈے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔
لیکن اپنے ملک میں بھائی ہم سب ’آزاد‘ ہیں۔ دانت کچکچانے میں، آنکھیں دکھانے میں، کسی کی عزت تار تار کرنے میں، کسی کمزور سفید پوش شریف النفس انسان کو اپنی دھونس دھمکی اور زور زبردستی سے مجبور کرنے میں۔
ہم آزاد ہیں چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر سڑک پر پیک اچھالنے میں۔ ہم آزاد ہیں جان بوجھ کر غلاظت سے بھرا کچرے کا تھیلا گلی میں پھینکنے میں۔ ہم آزاد ہیں عوامی مقامات پر بے ہودہ اور لچر زبان استعمال کرنے پر۔
ہم آزاد ہیں ہر جملے میں دو گالیاں دینے پر۔ ہمارے شہروں کی دیواریں ہمارے رویوں کا آئینہ دار ہیں۔ ناقابل نشر و اشاعت بیماریوں کے ساتھ فلاناں دواخانہ کے اشتہارات، محبوب آپ کے قدموں میں سے لے کر عامل بابا بنگالی کے ٹوٹکوں تک، سیاسی مخالفت میں منہ بھر بھر گالیوں سے سیاہ دیواریں اس بد تہذیب اور بے ہودہ معاشرے کی عکاس ہیں جس نے سڑک سے ایوان تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔
جو جتنا زبان دراز ہے وہ سیاسی پارٹی میں اُتنا ہی چہیتا، اُتنا ہی میڈیا کوریج اور ریٹنگز کا حق دار بھی ہے۔ وہ سیاسی کارکن ہو یا رہنما، کونسلر ہو یا ایم پی اے یا پھر معزز رکن قومی اسمبلی، سکوٹر سے ہوٹر تک سب ایک رنگ میں رنگے ہیں، ہٹ دھرمی سے دھرنے تک، دھرنے سے لڑنے مرنے تک، جیسی قوم ویسے حکمراں، یا یوں سمجھ لیجیے جیسا ریوڑ ویسے گلہ بان۔