پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’نہیں چاہتے مہاجرین کا سونامی افغانستان سے پاکستان آئے۔‘
کراچی میں جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’افغانستان کی جس حکومت کو کوئی نہیں مانتا، ان سے رابطہ رکھنا اس لیے ہماری مجبوری ہے کہ وہاں جو فیصلے امریکہ نے کیے اس کے نتیجے میں وہ وہاں حکومت میں ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ایک بار پھر وہاں سے مہاجرین کا سونامی پاکستان میں آئے، ہم نہیں چاہتے کہ وہاں کی معاشی تباہی کے نقصانات پاکستان بھی آئیں۔‘
’میں ان سے کہنا چاہتا ہوں جنہوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا کہ آپ پیٹھ نہیں پھیر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ فی الحال بے شک قبول نہ کریں لیکن نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک کے لیے بھی طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کے وقت میں خارجہ پالیسی کی بات ہے تو چار سالوں میں اسے نقصان پہنچا، چاہے یورپی ممالک ہوں یا عرب، عمران خان کی انا کی وجہ سے نقصان ہوا وہ پورے ملک اور عوام کا نقصان تھا۔
وزیر خارجہ کے مطابق: ’ہم نے آتے ہی سب سے مستعدی کے ساتھ رابطے کیے، نہ صرف باہمی تعلقات کو بہتر کرنا تھا بلکہ ہماری نظر ایف اے ٹی ایف، جی ایف پی پلس پر بھی تھی۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری حکومت جانے سے پہلے یہ تعلقات بہتر ہوں اور کافی حد تک بہتر ہو چکے ہیں۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف خان صاحب بلکہ قوم پرست بھی قدرتی آفت میں سیاست کرتے ہیں، یہ سازش ہے کہ مخصوص علاقے کو ڈبویا گیا، ہم کہاں ڈیم بنائیں؟ اتنے زیادہ پانی کے لیے ڈیم نہیں بنایا جا سکتا۔ اس وقت آئین کی ترمیم، سیاست کو فی الحال چھوڑیں، اس وقت ہمیں قدرتی آفت پر توجہ دینے دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیسہ ہمارے پاس اتنا نہیں ہے کہ ہر کسی کا گھر اپنے خرچ سے بنائیں۔ اس لیے حکومت سندھ ورلڈ بینک سے قرض لے رہی ہے تاکہ اس سے زراعت اور انفراسڑکچر کے لیے بلا سود قرضے دے سکیں۔
’ہمارے مفاد میں ہے کہ سب کے ساتھ کھڑے ہوں لیکن کسی کے ساتھ لڑائی نہ کریں۔ میں نے امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا ہے کہ ہم امریکہ کےساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور چین کے ساتھ بھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ بڑی قوتوں کے درمیان لڑائی نہ ہو اور ہم ان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ سیلاب ختم نہیں ہوا، ابھی تک بلوچستان کے پہاڑوں سے پانی سندھ میں آ رہا ہے۔ ڈوبا ہوا 50 فیصد حصہ خالی ہوچکا ہے 50 فصد رہتا ہے۔ سڑکوں کے دونوں طر ف سمندر ہی سمندر ہے۔ یہ سیلاب آسمان سے نیچے آئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے، 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ’میں کیسے سمجھاؤں کہ یو کے کے رقبے کے برابر رقبہ پاکستان میں پانی کے نیچے ہے؟‘
’میں ہر ملک سے رابطہ کر رہا ہوں ، ہمیں بہت مدد مل رہی ہے لیکن مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وسائل جتنے بھی ہوں کم لگتے ہیں۔
’دوسری قیامت صحت کے حوالے سے چل رہی ہے۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں سے پھیل رہی ہیں۔ ابھی تک ہم نے 3.8 ملین لوگوں کو صحت کی امداد دی ہے۔ موسمیاتی، صحت اور فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔ جہاں سے پانی نکلا ہے وہاں نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں، بلوچستان میں ایک لاکھ دس ایکٹر زمین پانی کے نیچے ہے وہ سارا سندھ میں سے گزرے گا۔ جب تک وہ نہیں نکلے گا نقصان کا درست اندازہ نہیں لگ سکتا۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا ک ہم اگر ایک ملک ہیں تو ایک ملک بن کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک حصہ سیلاب سے نمٹ رہا ہے تو دوسرا سیاست کر رہا ہے۔
’ہم مایوس نہیں ہیں سب محنت کر رہے ہیں، ہمیں محسوس ہو رہا ہے ہمارا وزیراعظم سب کا خیال رکھ رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ چاہتے ہیں قوم کی توجہ اس آفت سے ہٹ کر ان کی طرف جائے۔
’اس وقت ہم نے سیاست کا نہیں سوچنا۔ اس وقت سیاست کو پیچھے چھوڑ کر اپنے عوام کی مدد کرنی ہے۔ 16 ملین بچے متاثر ہیں۔ متاثرین میں چھ لاکھ حاملہ خواتین ہیں۔ آج ہم اس آفت کا سامنا کر رہے ہیں کل دوسرے کریں گے۔ ہمیں مل کر اس کا سامنا کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے یہ بہت بڑا امتحان ہے لیکن ہم سرخرو ہوں گے۔ ہم اپنے عوام کے ساتھ ہیں۔ جتنے بھی وسائل موجود ہیں ان کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں۔ نقصان کا درست تخمینہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس کا ازالہ کیا جائے۔ امیر ممالک نے خود کو امیر بنانے کی کوشش میں دوسرے ممالک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم بھیک نہیں انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں دنیا سے۔ ہم ایسا کام کرنا چاہتے ہیں مستقبل کی تباہی سے نمٹا جا سکے۔
’حکومت اور متاثرین مل کر ٹوٹے ہوئے مکانات بنائیں گے۔ ہم نے طے کیا ہے ہم دن رات محنت کر کے کسانوں کو اگلی فصل لگانے دیں گے، اگر تصاویر دیکھیں تو یہ ناممکن لگتا ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے انفرا سٹرکچر کو بہتر بنانا ہے۔‘
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’33 ملین لوگوں کی ایک ساتھ مدد کرنا جلد ممکن نہیں۔ آپ جتنا بھی کریں وہ ناکافی ہیں۔ این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت کام کر رہی ہے، باہر سے آنے والا سامان فوج تقسیم کر رہی ہے۔ بہت سے جہاز آئے ہیں لیکن سامان ناکافی ہے۔‘
بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ ویب سائٹ پر تمام معلومات ہیں کہ کہاں سے کتنا آرہا ہے اور کس کس کے پاس تقسیم کے لیے جا رہا ہے۔ سب ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں۔
’عمران خان کی عادت ہے الزام لگانا، کسی پر چندا چوری کا الزام نہیں لگا صرف عمران خان پر چندہ چوری کا الزام لگا ہے۔ حکومت آتے ہی اس نے اپنا گھر قانونی بنایا اور غریبوں کے گھر گرائے، عمران خان کا طریقہ کار یہ ہے کہ زیادہ جھوٹ بولو کچھ نہ کچھ تو لوگ مان ہی لیں گے۔‘
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مختلف مواقع پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے اور متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گار زندگی گزار رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کہتی رہی ہے کہ سندھ میں سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کرنے میں کرپشن کی جا رہی ہے اور امداد مستحق افراد تک نہیں پہنچ رہی ہے۔