نیوزی لینڈ حکومت نے کہا ہے کہ چین کے بحری بیڑے نے ہفتے کو ایک نئی مشق کے دوران لائیو فائرنگ کی، جس سے قبل ریڈیو نشریات کے ذریعے وارننگ جاری کی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دو دنوں میں یہ دوسری بار ہوا ہے کہ چینی جنگی بحری جہازوں نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان بین الاقوامی پانیوں میں ایسی مشقیں کی، جس کے باعث حکام کو دوبارہ کمرشل ایئرلائنز کو الرٹ کرنا پڑا۔
آسٹریلیا اور اس کا قریبی اتحادی نیوزی لینڈ، تین چینی بحری جہازوں، جن میں ایک فریگیٹ، ایک کروز اور ایک سپلائی ٹینکر شامل ہے، کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جو گذشتہ ہفتے آسٹریلیا کے ساحل کے قریب دیکھے گئے تھے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر دفاع جوڈتھ کولنز کے دفتر نے ایک بیان میں کہا: ’نیوزی لینڈ کی بحریہ کے ایک فریگیٹ پر موجود عملے نے مشاہدہ کیا کہ چینی جنگی بحری جہاز ’زونی‘ کی مرکزی توپ سے لائیو راؤنڈ فائر کیے گئے، جیسا کہ اس قسم کی مشق کے دوران توقع کی جاتی ہے۔
بیان کے مطابق، یہ تینوں چینی جہاز اس وقت تسمان سمندر میں بین الاقوامی پانیوں میں موجود تھے۔
مزید کہا گیا: ’جیسا کہ گذشتہ روز ہوا، چینی بیڑے نے ریڈیو چینلز کے ذریعے لائیو فائرنگ کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔
’نیوزی لینڈ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ساتھ مل کر دفاعی حکام اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ تمام جہازوں کو مطلع کیا جائے۔ ہمارے لیے تمام افراد، طیاروں اور جہازوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔‘
نیوزی لینڈ نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے وقت اور بہترین عملی طریقہ کار سے متعلق اپنی تشویش ’مناسب طریقے‘ سے چین کے ساتھ اٹھائی جائے گی۔
دوسری جانب آسٹریلیا نے ہفتے کو کہا کہ اسے اب تک بیجنگ سے جمعے کی مشق پر تسلی بخش وضاحت نہیں ملی، جس میں چینی بحری جہازوں نے ’تشویش ناک‘ لائیو فائر وارننگ جاری کی، جس کی وجہ سے کمرشل پروازوں کو اپنا راستہ بدلنا پڑا۔
آسٹریلوی حکام کے مطابق جمعے کے مشق میں چینی بیڑے کی طرف سے فائرنگ کا ہدف تعینات کرنے کے باوجود کسی قسم کی ’فائرنگ سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی۔‘
آسٹریلوی وزیر دفاع رچرڈ مارلز نے کہا: ’چین نے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی، لیکن 12 سے 24 گھنٹے قبل اطلاع دینے کے بہترین عملی طریقہ کار کی پیروی نہیں کی، اور کینبرا نے یہ معاملہ بیجنگ کے ساتھ اٹھایا ہے۔‘
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے بھی جوہانسبرگ میں جی 20 اجلاس کے موقعے پر اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
دوسری جانب بیجنگ نے جمعے کی مشقوں کو ’محفوظ، معیاری اور پیشہ ورانہ‘ تربیتی مشق قرار دیا، جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تھیں، تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ان میں اصل گولہ بارود استعمال کیا گیا یا نہیں۔