عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپاس نے خبردار کیا کہ دنیا کو ’قرض کے بحران کی پانچویں لہر‘ کا سامنا ہے۔
انہوں نے اس صورت حال میں معاشی بحران میں گھرے ممالک کے لیے مزید مدد کا مطالبہ بھی کیا۔
کرونا کی وبا کے باعث بہت سے ممالک کو مزید قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا جس کے بعد عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا کہ بہت سے ممالک پہلے ہی عالمی افراط زر اور بڑھتی ہوئی شرح سود کے باعث قرض کی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں یا اس کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ڈیوڈ میلپاس نے جمعے کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’میں قرضوں کی سطح سے پریشان اور کچھ ممالک کے بارے میں فکر مند ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صرف رواں سال کے دوران کئی ممالک پر دو طرفہ اور نجی قرضوں کی سروس سے تقریباً 44 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگیاں واجب الادا ہو چکی ہیں۔
’ان میں کچھ غریب ترین ممالک میں کو اس غیر ملکی امداد سے زیادہ کی ضرورت ہے جتنی ان کو دی جا رہی ہے۔‘
ان کے بقول: ’ابھی ہم اس صورت حال کے درمیان ہیں جو میرے خیال میں قرض کے بحران کی پانچویں لہر ہے۔‘
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ اجلاسوں کے لیے واشنگٹن میں پالیسی سازوں کے جمع ہونے سے کچھ دن قبل ڈیوڈ میلپاس نے قرض کی سطح پر قرض دہندگان اور قرض لینے والوں سے ’بنیادی طور پر زیادہ شفافیت‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
وہ طویل عرصے سے کم آمدنی والے ممالک کو قرض دینے والے چین سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بیجنگ کو قرض دینے کے بارے میں زیادہ شفاف اور قرضوں کی تنظیم نو کی کوششوں میں زیادہ فعال ہونا چاہیے۔
عالمی بینک کے صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی معیشت کو ایک مشکل وقت کا سامنا ہے جہاں کئی ممالک بڑھتی ہوئی افراط زر اور بڑھتی ہوئی شرح سود سے دوچار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال میں پوری دنیا کو ایسی مزید لہروں کے خطرے کا سامنا ہے جب کہ کئی ممالک کی معیشت جو ابتدائی طور پر بحال ہوئی تھی، کے پٹڑی سے اترنے کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا۔
کچھ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بڑی معیشتوں کی طرف سے جارحانہ شرح سود میں اضافہ عالمی کساد بازاری کا باعث بن سکتا ہے لیکن پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ افراط زر کو بلند ہونے کی اجازت دینا اس سے بھی بدتر ہو گا۔
ڈیوڈ میلپاس نے اس بارے میں کہا: ’یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہم ترقی پذیر دنیا میں ان مالیاتی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں جب کہ ہم ترقی کی بحالی اور تیزی سے ترقی کے ماحول کی طرف بڑھنے کے حوالے سے ترقی یافتہ معیشتوں کی زیادہ اہمیت کو تسلیم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو بھی زیادہ سرمائے کے بہاؤ کی ضرورت ہے اور اگرچہ عالمی بینک بحران کے شکار ممالک کے لیے مدد بڑھا رہا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق 1970 کے بعد سے عالمی معیشت میں قرضوں کی چار لہریں آ چکی ہیں جس نے عام طور پر بہت سی ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں میں مالیاتی بحران کو جنم دیا ہے۔