ہمیں ایسی خبریں چاہییں جو قلب کو گرما دیں، روح کو تڑپا دیں

خبر کی دنیا میں ایسی اندھیر مچی ہوئی ہے کہ اللہ معافی۔ خبر دینے والےلفظ ’مبینہ‘ اور ’ذرائع‘ کا بہترین استعمال کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلیتے ہیں۔

خبر دینے والےلفظ ’مبینہ‘ اور ’ذرائع‘ کا بہترین استعمال کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلیتے ہیں(اے ایف پی)

خبر کی دنیا میں اِن برسوں کچھ ایسی اندھیر مچی ہوئی ہے کہ اللہ معافی۔ ایسا لگتا ہے کہ ماس کمیونکیشن میں کسی عملی مشق کے بجائے لگے بندھے سافٹ وئیر طالب علموں کے دماغ میں انسٹال کردیے جاتے ہیں۔

یا بہت سے بہت انہیں یہ فن سکھا دیا جاتا ہے کہ خبروں کی بے ہنگم بھیڑ میں ’مبینہ طور پر‘ اور ’ذرائع کے مطابق‘ جیسے دو چار جملے گھسڑم گھسیڑکے کیسے گھساڑے جاتے ہیں۔

اب کسی اخبار نویس نے کسی اچھے بھلے انسان پر کوئی الزام دھرنا ہو تو تین ہی کام کرتا ہے۔ خبر میں ردِ بلا کے واسطے اول آخر درود شریف کی طرح لفظ ’مبینہ‘ کا دوچار بار وِرد کردیتا ہے۔

ملزم کی طرف سے آنے والے کسی بھی متوقع سوال سے بچنے کے لیے خبر میں کسی مناسب سی جگہ پر چپکے سے  لفظ ’باخبرذرائع‘ بھی رکھ دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ کی نسلیں بھی اگر رل جائیں توآپ صحافی کا گریبان نہیں پکڑسکتے۔

گریبان پکڑبھی لیا تو صحافی بڑی بے نیازی سے الٹا سوال داغ سکتا ہے کہ خبر میں اتنا بڑا ’مبینہ‘ لکھا ہوا نظر نہیں آرہا کیا؟ کہیں غلطی سے آپ نے پوچھ لیا کہ یہ ’باخبر‘ ہستی کون ہیں تو جواب آئے گا، بری بات ! مزدور ملازم سے تنخواہ، جوانِ رعنا سے عمر اور صحافی ِ بلا خیز سے ذرائع نہیں پوچھتے۔

تیسرا کام اخبارنویس یہ کرتے ہیں کہ خبر کو لگے بندھے سافٹ وئیر پر رکھ کے سیدھا سیدھا ناپ لیتے ہیں۔ سافٹ وئیر کو صرف موقع محل بتانا پڑتا ہے، اسی مناسبت سے وہ آپ کو لگی بندھی اصطلاح تجویز کردیتا ہے۔

مثلا خبر پارلیمنٹ کی ہوئی تو سافٹ وئیر ’ہنگامہ آرائی‘ کا جملہ اٹھا کرآپ کو دے دے گا۔ خبرعدالت کی ہوئی تو ’اظہار برہمی‘ سامنے رکھ دے گا۔ تھانے کی خبر ہوئی تو ’رشوت ستانی‘ ابھر کے سامنے آجائے گا۔

بازار کی ہوئی تو ’گراں فروشی‘ کا آپشن سامنےآجائے گا اور اگرخبر ہسپتال کی ہوئی تو ’ڈاکٹروں کی غفلت‘ جیسا جملہ جگمگ جگمگ نمایاں ہوجائے گا۔

صحافی تو خیر محض خبر دیتا ہے اور ہم کمال کرتے ہیں کیونکہ ہم بھی عام رجحان والی لکیر پکڑ کے بالکل سیدھ میں چلتے ہیں دائیں بائیں دیکھنے کی زیادہ زحمت نہیں کرتے۔

کوئی بھی واقعہ ہوجائے تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی وجہ وہی بتائی جائے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے۔

اگر واقعے کے قلابے رجحان کے برعکس کوئی نتیجہ دے دیں تو جی ہی جی میں ہم ماتم کرنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ دو واقعات سامنے رکھ کر جائزہ لے لیجیے۔

ڈاکٹر سیمیں جمالی جناح ہسپتال سندھ کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی کو انہوں نے لاڈلے بچے کی طرح پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے ہاں ایک چیف جسٹس ہوا کرتے تھے۔ اللہ بخشے اپنے فرضِ منصبی کے علاوہ ہرفریضہ انجام دینے کی انہیں توفیق تھی۔

چھاپوں کے موسم میں ایک چھاپہ انہوں نے جناح ہسپتال پر بھی مارا۔ اس چھاپے کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں ایک سماعت کے دوران ہوا۔ کسی معاملے پر بحث و تکرار ہوئی تو چیف جسٹس صاحب نے کہا میں خود جا کر دیکھ لوں پھر؟ ہوجائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی؟

جمالی صاحبہ نے کہا، جی ضرور، کیوں نہیں۔ اتنا ہی کہنے کی دیر تھی کہ قاضی کے قافلے نے قلمدان سمیٹا اور گھوڑوں کو ایڑلگا دی۔

ڈاکٹر سیمیں کی گاڑی جب تک پارکنگ سے نکلتی چیف جسٹس صاحب کا قافلہ تام جھام کے ساتھ ہسپتال پہنچ چکا تھا۔ سیمیں جمالی گرتی پڑتی ہسپتال پہنچیں تو بات ابھی ایمرجنسی میں گھوم رہی تھی۔

چیف جسٹس صاحب نے اپنے اکاؤنٹنٹ سے کہا، میرے اکاؤنٹ سے ڈاکٹر سیمیں جمالی کو ایک لاکھ روپے بطور انعام دے دینا۔

چیف صاحب نے سیمیں جمالی کو تھپکی دی، کام کو سراہا، دعائیں دی اور چلے گئے۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی اپنی محنت کا صلہ پا کربہت خوش تھیں۔ ہنستی چہچہاتی اپنے دفتر آکر بیٹھیں تو سامنے ٹی وی پر خبریں کچھ یوں چلتی ہوئی سنائی اور دکھائی دیں

چیف جسٹس کا جناح ہسپتال کا اچانک دورہ

چیف جسٹس طبی عملے کی ناقص کارکردگی پر برہم ہوگئے

لوگوں نے شکایتوں کے انبار لگا دیے

چیف جسٹس نے ڈاکٹر سیمیں جمالی کی سرزنش کردی

 دوسرا واقعہ لاہور کا ہے۔ صادق آباد کے نورالحسن نامی ایک رہائشی کا وزن اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ معمولاتِ زندگی معطل ہوچکے تھے۔

نورالحسن کو باہر گاڑی تک لانے کے لیے گھر کا مرکزی دروازہ توڑنا پڑا۔ انہیں ٹرک میں لٹا کرایک مقامی گراؤنڈ تک لے جایا گیا جہاں آرمی چیف کی ہدایت پر ایک ہیلی کاپٹر ان کا منتظر تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں لاہور کے شالامار ہسپتال لے جایا گیا۔ یہاں لیپرواسکوپک سرجن ڈاکٹر معاذ نے ان کا علاج کرنا تھا۔ ڈاکٹر معاذ نے نورالحسن کی جسمانی حالت دیکھی اور پھر مالی حالت، تو دو کام کیے۔

اول اہل خانہ کو کامیاب آپریشن کا یقین دلایا اور پھر اطمینان دلایا کہ وہ سرجری پر آنے والا خرچہ اہل خانہ سے وصول نہیں کریں گے۔

ڈاکٹر معاذ نے یہ آپریشن پوری کامیابی سے انجام تک پہنچایا۔ کامیاب سرجری کے بعد نورالحسن کو آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔

یہیں ایک خاتون بھی زیر علاج تھیں۔ صبح ایک دم خبر ہوئی کہ وہ خاتون دم توڑ گئی ہیں۔ خاتون کے لواحقین نے اول خبر دینے والے کا ناریل پھوڑا اور پھر باقی عملے پر پل پڑے۔

لواحقین کو جو بھی چیز ہاتھ لگی اسے ہتھیار کیا، طبی عملے کو جان کے لالے پڑے تو وہ بجا طور پر محفوظ ٹھکانوں کی طرف بھاگ نکلا۔

لواحقین نے ڈاکٹروں کو مارا، ڈرپ سٹینڈز کو تشدد کے لیے استعمال کیا، آئی سی یو کی کھڑکیاں توڑیں، ٹیبل، کرسیاں، الماریاں الٹائیں اور جو آلہ ہاتھ آیا پٹخ دیا۔

حد یہ ہوئی کہ وینٹی لیٹر کی تاریں بھی انہوں نے کھینچ نکالیں۔ اس پورے ہنگامے کے نتیجے میں ایک گھنٹہ ضائع ہوا، ایک خاتون اور نورالحسن ہلاک ہوگئے۔

کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر دو جانیں ضائع ہوئیں۔ حالانکہ تین جانیں ضائع ہوئیں کہ ہلاک ہونے والی خاتون امید سے تھیں۔ مختلف مقامات پر جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے طبی عملے نے بمشکل تمام سر نکالا تو ٹی وی پر کچھ ایسی خبریں سننے کو ملیں

موٹاپے کا شکار مریض نورالحسن ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے ہلاک

ایک گھنٹے تک آئی سی یو میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی طبی اہلکار نہیں آیا

ڈاکٹر مریض نورالحسن کے ساتھ سیلفیاں کھنچواتے رہے

اعتراف کرنا چاہیے کہ دونوں واقعات میں بہت دیر بعد سہی، خبر مل جانے کے بعد درست خبریں بھی آنا شروع ہوگئیں۔

مگر دو چیزیں پھر بھی نہ ہوسکیں۔ ایک، جنہوں نے عام رجحان کے مطابق خبریں چلائیں ان میں سے کسی کو معذرت کا حوصلہ نہیں ہوا کیونکہ خبر دینے والوں نے لفظ ’مبینہ‘ اور ’ذرائع‘ کا بہترین استعمال کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلی تھی۔

دوسرا، ڈاکٹر سیمیں جمالی کی تیس سالہ محنت اور ڈاکٹر معاذ کی معاف کی گئی فیس و دیگر ادائیگیاں کہیں نظر نہیں آئیں کیونکہ ڈاکٹر توکبھی نیکی کر ہی نہیں سکتے۔ وہ تواگر کچھ کرسکتے ہیں تو بس غفلت ہی کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر