انڈیا کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے بدھ کے روز اپنے پہلے ایسے لیڈر کا انتخاب کرلیا ہے جو گاندھی خاندان سے نہیں ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 80 سالہ سابق وزیر ملکارجن کھرگے کو اراکین نے سونیا گاندھی کی جگہ صدر کے طور پر منتخب کیا ہے۔
انڈیا میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے نئے صدر کا اعلان آج ہوا۔ اس عہدے کے لیے انتخابات دو روز قبل ہوئے تھے۔
اس ہفتے کے اوائل میں ملک بھر میں ڈالے گئے 9500 سے زیادہ ووٹوں کی گنتی فی الحال نئی دہلی میں اے آئی سی سی ہیڈ کوارٹر میں کی جا رہی ہے۔ پارٹی کی صدارت کے لیے انتخابات میں تجربہ کار رہنما ملکارجن کھڑگے اور لوک سبھا کے رکن ششی تھرور کے درمیان مقابلہ تھا۔
نئے صدر کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کی جگہ لیں گے جو 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد راہل گاندھی کے استعفیٰ دینے کے بعد سے اس عہدے پر فائز ہیں۔
انڈیا کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس 20 سال سے زیادہ عرصے میں اپنے پہلے غیر گاندھی صدر کا انتخاب کیا ہے۔
ملک کے ریاستی یونٹس کے صدر دفاتر میں ووٹنگ ہوئی جبکہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کے لیے پارٹی ہیڈکوارٹرز میں ایک پولنگ بوتھ قائم کیا گیا تھا۔ کانگرس کی آج کل چل رہی تحریک بھارت جوڑو یاترا کے حصہ لینے والوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
گاندھی خاندان کا کوئی بھی رکن 24 سالوں میں پہلی بار پارٹی کے اس اعلی عہدے کے لیے امیدوار نہیں تھا۔ پارٹی نے آخری مقابلہ نومبر 2000 میں دیکھا تھا جب سونیا گاندھی نے اپنے حریف جتیندر پرساد کو بڑے فرق سے شکست دی تھی۔
اس سے پہلے 1997 میں سیتارام کیسری، شرد پوار اور راجیش پائلٹ کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہوا تھا جس میں کیسری جیت گئے تھے۔
سونیا گاندھی پارٹی کی سب سے طویل عرصے تک صدر رہنے والی شخصیت ہیں، جو 1998 سے 2017 اور 2019 تک بیس سال تک اس عہدے پر فائز رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کھڑگے اور تھرور دونوں نے ریاستوں میں گھومتے ہوئے 9000 سے زیادہ پردیش کانگریس کمیٹی کے مندوبین سے اپیل کرنے کے لیے مصروف مہم چلائیں ہیں جو پارٹی سربراہ کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج بناتے ہیں۔
کھڑگے نے کہا ہے کہ بی جے پی زیرقیادت حکومت سے لڑنے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے۔
ششی تھرور نے، جنہوں نے خود کو ’تبدیلی کے امیدوار‘ کے طور پر پیش کیا ہے، کہا ہے کہ انہیں ووٹ دینے سے ملک کو یہ پیغام جائے گا کہ کانگریس ’تبدیلی‘ کے لیے تیار ہے۔
ووٹر اپنا ووٹ بھارتی وقت کے مطابق شام چار بجے تک ڈال سکیں گے۔ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان 19 اکتوبر کو دہلی میں ہو گا۔
کانگریس کے ایک سینیئر عہدیدار پروین چکرورتی نے دی ہندو میں لکھا ہے کہ ’پارٹی کے پیچیدہ اور خطرناک اندرونی انتخابات زیادہ تر جماعتوں کے لیے اس طرح کی مشق کی کوشش کرنے کے لیے حوصلہ شکنی کا کام کرتی ہے۔ ... اگر اندرونی پارٹی جمہوریت ایک جادوئی گولی تھی، تو ایسا کیوں ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے اتنے لمبے عرصے تک اس کا استعمال نہیں کیا ہے؟