چین کے صدر شی جن پنگ اتوار کو تاریخی طور پر ملک کے تیسری بار صدر بن گئے ہیں۔
شی نے کمیونسٹ پارٹی میں اپنے بعض قریب ترین اتحادیوں کو ترقی دے دی ہے جس کے ساتھ ہی انہوں نے ماؤزے تنگ کے بعد چین کے مضبوط ترین رہنما کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ ملک کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے مزید پانچ سال تک شی جنگ پنگ کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا۔
اس طرح دہائیوں تک طاقت سرکردہ رہنماؤں کے درمیان تقسیم رہنے کے بعد ملک میں اقتدار کا جھکاؤ فیصلہ کن انداز میں ایک شخصیت کی جانب ہو گیا ہے۔
بیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپل میں بند کمرے میں ہونے والی ووٹنگ کے اعلان کے بعد شی جن پنگ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’پارٹی نے جو پرخلوص اعتماد ہم پر کیا ہے میں اس کے لیے پوری پارٹی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے وعدہ کیا کہ ’ہماری پارٹی اور لوگوں کے عظیم اعتماد پر پورا اترنے کرنے کی خاطر پوری دلجمعی کے ساتھ فرائض انجام دیے جائیں گے۔‘
شی کو چین کی مرکزی فوجی کمیشن کا دوبارہ سربراہ بھی منتخب کیا گیا ہے۔
مارچ میں حکومت کے سالانہ قانون ساز اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر اعلان ہونے کے بعد 69 سالہ شی کی چین کے صدر کے طور پر تیسری مدت یقینی ہے۔
ان کا تقرر 2300 پارٹی مندوبین کی ایک ہفتہ طویل کانگریس کے بعد عمل میں آیا۔ اجلاس کے دوران مندوبین نے قیادت میں شی کی بنیادی پوزیشن کی توثیق کی اور حکومتی قیادت میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی منظوری دی جس میں سابق حریف عہدوں سے الگ ہو گئے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20 کانگریس میں نئی مرکزی کمیٹی کا بھی انتخاب کیا گیا جس میں پارٹی کے دو سو لگ بھگ اعلیٰ عہدے دار شامل ہیں جو اتوار کو شی اور دوسرے رہنماؤں کو سٹینڈنگ کمیٹی کا رکن منتخب کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔
چین میں اس کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیاسی اختیارات حاصل ہیں۔ شی کے بعض قریب ترین اتحادیوں کو سات رکنی کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔
شنگھائی پارٹی کے سابق سربراہ اور صدر شی کے قریبی ساتھی لی کیانگ ترقی دے کر ملک میں دوسرا طاقتور رہنما مقرر کر دیا گیا۔
اس بات کا امکان ہے کہ انہیں اگلے سال مارچ میں حکومت کے سالانہ قانون ساز اجلاس میں ملک کا وزیر اعظم نامزد کر د یا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دہائی قبل ملک کا صدر بننے کے بعد سے شی نے اختیارات کو ایک شخص کے ہاتھوں میں منتقل کر دیا۔ ماؤزے کو چھوڑ کر چین کے جدید دور کے کسی دوسرے رہنما نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے 2018 میں کسی شخص کے صرف دو مرتبہ ملک کا صدر رہنے کی پابندی ختم کر دی تھی جس کے بعد ان کی غیر معینہ مدت تک حکمرانی کی راہ ہموار ہو گئی۔
شی کے دور میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا۔ بڑے پیمانے پر فوجی توسیع ہوئی اور عالمی سطح پر کہیں زیادہ جارحانہ انداز اپنایا گیا جس کے امریکہ نے سخت مخالف کی۔
روک ٹوک سے تقریباً مستثنیٰ اختیارات کے باجود شی کو اگلے پانچ سال کے دوران بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا جن میں ملک کی مقروض معشیت کا انتظام اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی مخالفت شامل ہے۔
موجودہ دور کا چین
اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے ساتھ ہی فاتحانہ ہفتے کا اختتام ہو گیا جس کے دوران چین کے اعلیٰ رہنماؤں نے گذشتہ پانچ سال میں اپنی قیادت کو سراہا۔
گذشتہ اتوار کو 20 ویں کانگریس س اپنے افتتاحی خطاب میں شی نے پارٹی کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے ملکی مسائل جیسے کہ جمود کا شکار معیشت اور اپنی صفرکوویڈ پالیسی سے ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈالی۔
جارحانہ انداز کرنے والے شی نے نظریات پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کا اعلان کیا جب کہ اپنی پالیسی کو نرم الفاظ میں بیان کیا۔
انہوں نے پارٹی ارکان پر بھی زور دیا کہ وہ متعدد چیلنجز کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں جن میں علاقے کے گھمبیر ہوتے جغرافیائی و سیاسی حالات شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں نے اس بات پر گہری نظر رکھی کہ آیا پارٹی کے منشور میں شی جن پنگ کی سوچ کو رہنمائی کے فلسفے کے طور پر شامل کرنے کے لیے ترمیم کی جائے گی یا نہیں۔ یہ ایسا اقدام ہے جس سے شی، ماؤ کے برابر ہو جائیں گے۔
تاہم ایسا نہیں ہوا حالاں کہ ایک قرارداد میں اس نظریے کو عصری چین اور 21 ویں صدی کا مارکسزم قرار دیا گیا اور مزید کہا گیا کہ یہ موجودہ دور کی بہترین چینی ثقافت اور اخلاقیات پر مشتمل ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق معاشی اصلاحات کے سب سے بڑے حامی اور چین کے دوسرے نمبر پر طاقتور عہدے دار وزیراعظم لی کی کیانگ ملک کی مکمل طاقتور پولٹ بیور سٹینڈنگ کمیٹی کے ان سات میں سے چار ارکان میں شامل ہیں، جنہیں اتوار کو قیادت میں ہونے والے ردوبدل میں دوبارہ تعینات نہیں کیا جائے گا۔
چاروں ارکان کا نام ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے 205 نئے ارکان کی اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جس کی منظوری پارٹی کے ایک ہفتے جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر ہفتے کو دی گئی۔