امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ بیجنگ میں اکٹھے بیٹھ کر نوڈلز کھا چکے ہیں۔ انہوں نے تبت کے بلند مقام پر بات چیت کے دوران امریکہ کے مطلب کے بارے میں اپنے گہرے خیالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔ انہوں نے امریکی کاروباری شخصیات پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کی دل سے عزت کریں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی صدر نے اپنے دلی یقین کے ثبوت کے طور پر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا ہے کیونکہ اچھی خارجہ پالیسی کا آغاز مضبوط ذاتی تعلقات استوار کرنے سے ہوتا ہے۔ لیکن ایسے وقت میں کہ جب پیر کو امریکہ اور چین کے صدور کے درمیان پہلی ملاقات ہونے جا رہی ہے، دونوں ملکوں کے مسائل کے شکار تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بطور سیاست دان بائیڈن کی سب سے بڑی صلاحیت، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، میں سے ایک یعنی رابطہ استوار کرنے کی صلاحیت کی اپنی کچھ حدود ہیں۔
باراک اوباما اور جارج بش انتظامیہ میں ایشیا کے معاملات پر قومی سلامتی کے مشیر رہنے والے میتھیو گڈمین کے مطابق: ’جب امریکہ چین تعلقات کی بات جاتی ہے تو خلا اتنے بڑے ہیں اور رجحانات اتنے مسائل کا شکار ہیں کہ صرف ذاتی تعلق ہی اتنا آگے تک جا سکتا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کے حکام کو امریکی اور چینی صدور کے درمیان پیر کو ہونے والی ورچوئل ملاقات سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ کسی بڑے اعلان کی توقع نہیں کی جا رہی اور نہ ہی ملاقات کے اختتام پر دونوں ملکوں کی طرف سے روایتی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
وہ گرم جوشی، جس کا نائب صدر کی حیثیت سے 2013 میں دورہ چین کے دوران عوامی سطح پر مظاہرہ کیا گیا، وہ بائیڈن اور شی کے سربراہ مملکت بننے کے بعد اب سرد پڑ چکی ہے۔ اس موقعے پر شی نے بائیڈن کا حوالہ ’دیرینہ دوست‘کے طور پر دیا تھا اور اپنی’دوستی‘کے بارے میں بات کی۔
جب رواں برس جون میں ایک رپورٹر نے بائیڈن سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے دیرینہ دوست پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ کرونا (کورونا) وائرس کے ماخذ کے معاملے میں تحقیقات میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ تعاون کریں تو بائیڈن کا جواب تھا کہ ’ہمیں ایک بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم دیرینہ دوست نہیں ہیں۔ یہ محض خالصتاً ایک کاروباری معاملہ ہے۔‘
اس کے باوجود بائیڈن کا ماننا ہے کہ روبرو ملاقات چاہے وہ ورچوئل ہی کیوں نہ ہو، جو پیر کی شام ہونے جا رہی ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی سیکرٹری جین ساکی کا کہنا ہے کہ ’وہ (جوبائیڈن) محسوس کرتے ہیں کہ ان کی دوستی کی تاریخ اور ان (شی جن پنگ) کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی بدولت وہ ویسے ہی خاصے صاف گو ہیں، جیسے کے ماضی میں تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔‘
آغاز میں 78 سالہ بائیڈن اور 68 سالہ شی کی واقفیت امریکہ اور چین بھر کے سفر کے دوران ہوئی جب دونوں نائب صدور تھے۔ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان رابطوں نے پائیدار تاثر چھوڑا۔ حال ہی میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے نو مہینوں کے دوران، جن میں دونوں ملکوں نے تجارت کے شعبے میں ایک دوسرے پر الزامات لگائے اور دونوں صدور کے اعلیٰ مشیروں کے دورے بے سود رہے، کے بعد دو طرفہ تعلقات پر جمی برف کم از کم جزوی طور پر پگھل سکتی ہے۔
مثال کے طور پر گذشتہ ہفتے امریکہ اور چین نے سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس میں وعدہ کیا کہ وہ اپنے تعاون میں اضافہ کریں گے اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسز کا اخراج کم کیا جائے گا۔
پیر کو ہونے والی ملاقات بائیڈن کے صدر بننے کے بعد ان کا شی سے تیسرا رابطہ ہے۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ اور چین کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ فروری اور ستمبر میں کی جانے والی فون کالز کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل گفتگو ہو چکی ہے۔ اس موقعے پر انسانی حقوق، تجارت، کرونا وائرس کی وبا اور دوسرے مسائل پر بات کی گئی۔
بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ وہ چین کو سلامتی اور معیشت میں امریکہ کا مقابلہ کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی کوشش کر چکے ہیں تاکہ اس میں ان کی یہ سوچ دکھائی دے۔
شمال مغربی چین میں نسلی اقلیتوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہروں کو دبانے اور کرونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات میں مکمل تعاون کے لیے عالمی دباؤ کی مزاحمت پر امریکہ چین کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ کشیدگی میں اس وقت بھی اضافہ ہوا جب چینی فوج نے خود مختار جزیرے تائیوان کے قریب متعدد بار طیارے اڑائے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ تائیوان بائیڈن-شی ملاقات میں زیر بحث آنے والا بڑا مسئلہ ہو گا۔ بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ ان کی انتظامیہ امریکہ کی ’ایک چین‘کی دیرینہ پالیسی کی پاسداری کرے گی، جو بیجنگ کو تسلیم کرتی ہے اور تائی پے کے ساتھ غیر رسمی اور دفاعی تعلقات کی اجازت دیتی ہے۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کے وفد کے دورہ تائیوان کے جواب میں چینی افواج نے تائیوان کے قریب فوجی مشقیں کیں۔
دوسرے امریکی صدور کی سوچ رہی ہے کہ امریکہ کے جغرافیائی و سیاسی مخالف چین کے ساتھ تعلقات خارجہ پالیسی کی اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو اس وقت تضحیک کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ انہوں نے ’اس شخص کی آنکھوں میں جھانکا اور ان کو اندر سے جان لینے کے قابل ہو گئے۔‘
بش روسی لیڈر کی کرافورڈ، ٹیکساس میں واقع اپنے فارم ہاؤس میں میزبانی کرتے اور انہیں ریاست مینے کے قصبے کینے بنک پورٹ میں اپنے والد کی جاگیر پر لے کر جاتے جہاں 41 ویں اور 43 امریکی صدور روسی صدر کو مچھلی کے شکار کے لیے لے جا چکے تھے، لیکن پوتن نے بالآخر بش کو مایوس کیا اور 2008 میں ہمسایہ ملک جارجیا پر روس کے حملے کے بعد یہ یہ تعلق ختم ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن کے ساتھ خطوط کے تبادلے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہیں’راکٹ مین‘کہہ کر ان کی تحقیر کرنے سے ان کے ساتھ’محبت ہو جانے‘کے اعلان تک جا پہچنے۔ تاہم سابق امریکی صدر شمالی کوریا کے ہم منصب کو جوہری پروگرام ترک کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہے۔
جوبائیڈن کی زندگی پر کتاب ’جو بائیڈن: دا لائف، دا رن اینڈ وٹ میٹرز ناؤ‘ کے مصنف ایون اوسنوس کے بقول: ’خارجہ پالیسی کے معاملے میں بائیڈن کی ذاتی سوچ کی اس حقیقت سے جزوی طور پر عکاسی ہوتی ہے کہ وہ گذشتہ نصف صدی کے زیادہ تر حصے میں عالمی منظر نامے پر موجود رہے ہیں۔ بائیڈن کی مشیر جولیان سمتھ نے اوسنوس کو بتایا: ’آپ انہیں قازقستان بھیجیں یا بحرین اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کسی ایسے شخص کو تلاش کر لیں جن کی ان سے 30 سال پہلے ملاقات ہوئی تھی اور اب وہ اقتدار میں ہے۔‘
نجی سطح پر ہونے والی گفتگو سے واقف ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ کے بعض سینیئر عہدے داروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب بیجنگ فروری میں سردیوں کے اولمپکس کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور شی جن پنگ اس تیاری میں مصروف ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اگلے اکتوبر سے ان کے تیسری بار پانچ سال کے لیے صدر بننے کی منظوری دے دیں، جس کی چین کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس بات کی کئی وجوہات ہیں کہ چینی رہنما مستقبل قریب میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے پر غور کریں۔
بیجنگ کو سست رفتار شرح نمو اور رہائش کے بحران کا سامنا ہے۔ سی بی ایس ٹیلی ویژن کے پروگرام ’فیس دا نیشن‘ پراتوار کو نشر ہونے والے اپنے انٹرویو میں امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلن نے خبر دارکیا کہ چین کے مسائل گھمبیر ہونے کے’عالمی سطح پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ ہی بائیڈن، جن کی حمایت میں کرونا وائرس کی اب تک کی جاری وبا، افراط زر اور رسد کے نظام کے مسائل کے پیش نظر کمی آئی ہے، خارجہ پالیسی کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز مسئلے، جن کا انہیں سامنے سامنا ہے، میں توازن لانے کا طریقہ تلاش کر رہے ہیں۔
بائیڈن، شی کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کو ترجیح دیتے لیکن کرونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد سے شی چین سے باہر نہیں گئے۔ ستمبر کے ٹیلیفونک رابطے کے دوران بائیڈن نے ذکر کیا کہ وہ چینی رہنما شی کے ساتھ دوبارہ ملاقات کرنا چاہیں گے، جس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ویڈیو لنک پر ملاقات کی تجویز دی گئی۔