چین میں جاری حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس میں جماعت کے آئین میں ایسی ترامیم منظور کر لی گئی ہے جو صدر شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے صدر چنے جانے کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
ہفتے کو کانگریس کے اختتامی سیشن سے خطاب میں چینی صدر کا کہنا تھا کہ ’محنت کے لیے ہمت کریں، جیتنے کے لیے ہمت کریں۔ محنت میں جت جائیں اور آگے بڑھتے رہیں۔‘
اس کانگریس کے دوران سابق صدر ہوجن تاؤ کو بظاہر ان کی مرضی کے خلاف ہال سے باہر لے جایا گیا جس کے دوران انہوں نے صدر شی سے بات کرنے کی کوشش بھی کی۔ حکام نے ابھی تک اس واقعے کی کوئی وضاحت جاری نہیں کی۔
تاہم چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے کل ہونے والے اختتامی اجلاس میں سابق صدر ہوجن تاؤ کو طبیعت خراب ہونے پر کانگریس ہال سے باہر لے جایا گیا۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے اس واقعے کے بارے میں ٹویٹ کی ہے کہ ’ہوجن تاؤ نے کمیونسٹ پارٹی کی 20 ویں نیشنل کانگریس کی اختتامی نشست میں شرکت پر اصرار کیا حالاں کہ وہ حال ہی میں صحت یاب ہونے میں وقت لے رہے تھے۔‘
دوسری ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جب اجلاس کے دوران ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو ان کا عملہ انہیں ان کی صحت کی خاطر آرام کے لیے اجلاس کے ہال سے متصل کمرے میں لے گیا۔ اب ان کی حالت بہت بہتر ہے۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق معاشی اصلاحات کے سب سے بڑے حامی اور چین کے دوسرے نمبر پر طاقتور عہدے دار وزیراعظم لی کیانگ ملک کی مکمل طاقتور پولٹ بیور سٹینڈنگ کمیٹی کے ان سات میں سے چار ارکان میں شامل ہیں، جنہیں اتوار کو قیادت میں ہونے والے ردوبدل میں دوبارہ تعینات نہیں کیا جائے گا۔
چاروں ارکان کا نام ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے 205 نئے ارکان کی اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جس کی منظوری پارٹی کے ایک ہفتے جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر ہفتے کو دی گئی۔
اس اجلاس میں پارٹی کی قیادت اور اگلے پانچ سال کا ایجنڈا طے کیا گیا۔ صرف مرکزی کمیٹی کے ارکان ہی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن بن سکتے ہیں۔
وزیراعظم کے علاوہ جن تین دوسرے رہنماؤں کو مرکزی کمیٹی کا رکن نہیں بنایا گیا ان میں شنگھائی پارٹی کے سربراہ ہان ژینگ، پارٹی کی مشاورتی تنظیم کے سربراہ وانگ یانگ اور لی ژانشو شامل ہیں۔ ژانشو طویل عرصے سے شی جن پنگ کے اتحادی اور زیادہ تر رسمی نیشنل پیپلز کانگریس کے سربراہ تھے۔
بیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپل میں دو ہزار ارکان کی موجودگی میں کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کا اختتامی اجلاس ہوا۔
اسی اجلاس میں اگلے پانچ سال کے لیے ایک نئی مرکزی کمیٹی کے قیام کی منظوری بھی دی گئی جو دو سو ارکان پر مشتمل ہو گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اتوار کو جب جماعت کی نئی قیادت کا اعلان کیا جائے تو صدر شی ہی اس جماعت کے اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوں گے۔
اس سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران غیر ملکی میڈیا کو اس کی کوریج کی اجازت نہیں تھی۔
چینی دارالحکومت کی اہم شاہراہوں پر پولیس اہلکار تعینات رہے جبکہ کسی بھی غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہر علاقے میں مقامی سطح پر بھی نگران اہلکار مقرر ہیں۔
گذشتہ ہفتے چینی حکام نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا تھا، جس نے صدر شی کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ اور ان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بیجنگ کے ایک پل پر ان کے خلاف بینر نصب کر دیے تھے۔
ایک بینر پر درج تھا: ’ہم کھانا کھانا چاہتے ہیں، پی سی آر ٹیسٹ نہیں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں لاک ڈاؤن نہیں۔ ہم عزت چاہتے ہیں جھوٹ نہیں۔ ہم ثقافتی انقلاب نہیں بلکہ اصلاح چاہتے ہیں۔ ہمیں لیڈر نہیں انتخابات چاہیے۔ ہم شہری بننا چاہتے ہیں، غلام نہیں۔‘
جب کہ دوسرے بینر پر ’غدار آمر شی جن پنگ کو ہٹاؤ‘ تحریر تھا۔
اس چینی شہری کے احتجاج کے بعد 13 اکتوبر سے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، ہانگ کانگ اور یورپ کی متعدد مغربی یونیورسٹیوں کے تقریباً 200 کیمپسز میں صدر شی مخالف پیغامات دیکھے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’برج مین‘ کے احتجاج پر ردعمل ایک ایسے حساس وقت میں سامنے جب چینی صدر باضابطہ طور پر تیسری پانچ سالہ مدت صدارت حاصل کر کے ماؤ زے تنگ کے بعد ملک کے سب سے طاقتور رہنما بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔
صدر شی کو تیسری مدت کے لیے صدر بننے کی اجازت ملنا ماؤزے تنگ کے اس آئینی فیصلے کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت کسی بھی شخص کو صرف دو بار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی اس کانگریس میں چین کا اگلے پانچ سال کا قومی ایجنڈا بھی طے کیا جائے گا۔ کانگریس کے افتتاحی سیشن میں چینی صدر نے اپنے بیان میں بین الااقوامی چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے موجودہ پالیسیوں پر قائم رہنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر شی گذشتہ دہائی میں چین کے طاقتور ترین رہنما کے طور پر ابھرے ہیں اور ان کی طاقت کا موازنہ کمیونسٹ چین کی 1949 میں بنیاد رکھنے والے ماؤزے تنگ سے بھی کیا جاتا ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کا ماخذ کیا ہے؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی سی پی) کی بنیاد 1921 میں رکھی گئی۔ اس کی پہلی کانگریس شنگھائی میں ہوئی جس میں سابق سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی نے اس کی مدد کی۔ یہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ ایک دہائی پہلے چین نے دو ہزار سال تک جاری رہنے والی بادشاہت سے نجات حاصل کی تھی۔
حبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین میں دوسرے سیاسی ماڈلز کی ناکامی کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں کو مارکسزم سے حوصلہ ملا تھا۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی کتنی طاقتور ہے؟
یہ پارٹی چین میں سب سے زیادہ طاقتور اور اثرورسوخ کی مالک ہے۔ یہ نیشنل پیپلزکانگریس کو کنٹرول کرتی ہے جو ملک کی ربرسٹیمپ پارلیمنٹ ہے۔
پارٹی جو قوانین منظور یا ان میں ترمیم کروانا چاہتی تو وہ اپنا حکم چلاتی ہے۔ چینی عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پارٹی کو جوابدہ ہیں۔ سرکاری شعبے کے ذرائع ابلاغ جیسے کہ خبر رساں ادارہ شنہوا کے سربراہ، پارٹی کے پروپیگنڈا ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
صدر شی فوج کو براہ راست کمان کرتے ہیں۔ ان کے پاس کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی ہے جبکہ وہ پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔