وینزویلا کے دارالحکومت کیراکس کے جے ایم ڈی لوس ریوس ہسپتال میں زیرعلاج سرطان اور دوسری بیماریوں میں مبتلا 26 بچوں کی جان بچانے کے لیے ان کی ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کی ضرورت ہے۔
کچھ ہفتے قبل ہسپتال میں 30 بچے زیر علاج تھے لیکن اب چار بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ماؤں کو بچوں کی جان بچانے کے لیے اس ملک میں کسی معجزے کا انتظارہے جہاں الرجی کی دواؤں سمیت، مختلف اقسام کی ویکسین اور اینٹی بائیوٹک ادویات تک ملنا دشوار ہے۔ ہڈیوں کا گودا عطیہ کرنے والوں کا ملنا تقریباً ناممکن ہے لیکن بیماری میں مبتلا بچوں کی ماؤں کی امید ختم نہیں ہوئی۔
یہ مائیں کیمرے کے سامنے تو حوصلے کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن اُن لمحات کو یاد کرکے چپکے چپکے روتی ہیں جب وہ اپنے بچوں کی حالت کو آہستہ آہستہ خراب ہوتے دیکھتی ہیں۔
خواتین اور ان کے بچے جن کی عمریں چار اور 17 برس کے درمیان ہیں، اس اذیت کے بارے میں بتاتے ہیں جس سے وہ جے ایم ڈی لوس ریوس ہسپتال میں روزانہ گزرتے ہیں جو وینزویلا میں بچوں کے لیے مرکزی سرکاری ہسپتال ہے۔
ہسپتال میں روزانہ موت سے جنگ لڑی جاتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے موذی مرض میں مبتلا 15 سالہ لڑکی ایڈنی مارٹینیز کی والدہ ایویلین فرنینڈس کہتی ہیں: ’ہم بہت عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہرروز کوئی نہ کوئی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔‘
تھیلیسیمیا میں جسم میں خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہر تیسرے ہفتے خون لگوانا پڑتا ہے۔
ایڈنی مارٹینیز وکیل بننے کے خواب دیکھتی ہیں۔ انہیں اُس وقت سے خون لگ رہا جب ان کی عمر سات ماہ تھی۔ وہ ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں بھی مبتلا رہ چکی ہیں۔ ان بچوں کو ’ ایکساج ‘ (Exaje) نامی دوا کی ضرورت ہے جو خون لگنے کے بعد جسم میں فولاد کی مقدار میں توازن لاتی ہے لیکن یہ دوا گذشتہ برس نومبر سے دستیاب نہیں ہے۔
کرسٹینا زیمبرا نو نامی نوجوان لڑکی نے اپنی حالت خراب ہونے سے پہلے اشتہارات کے شعبے میں کام کا خواب دیکھا تھا۔ وہ 2014 سے ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کا انتظار کر رہی ہیں۔ 2016 میں خون لگنے کے بعد انہیں ہیپاٹائٹس سی ہو گیا۔
14 سالہ جیرسن ٹورس میں ہڈیوں کے گودے کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان کی والدہ ویرونیکا مارٹینیز کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا ضدی ہے۔ وہ کبھی کبھار کہتا ہے: ’اگر مجھے مرنا ہے تو میں مر جاؤں گا۔‘
بیماریوں میں مبتلا ان بچوں کی زندگی مختصر ہے۔ ان کی طبیعت، فٹ بال کھیلنے اور ساحل سمندر پر جانے جیسے روزمرہ کے معمولات میں رکاوٹ ہے۔ ان کی نشوونما کا عمل کمزور پڑ گیا ہے۔ وینزویلا میں صرف دو مراکز ایسے ہیں جہاں ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کی جاتی ہے، وہ بھی اُس صورت میں کہ گودا عطیہ کرنے والا کوئی ایسا شخص مل جائے جس کا گودا مریض کے گودے سے مطابقت رکھتا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کا ایک مرکز سرکاری اور دوسرا نجی ہے۔ نجی شعبے میں ہڈیوں کے گودے کی تبدیلی کا خرچہ 20 ہزار ڈالر (16 ہزار پاؤنڈ) تک ہو سکتا ہے جو وینزویلا کے ایک عام شہری کے بس کی بات نہیں ہے۔ 2006 میں وینزویلا حکومت نے اٹلی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ ان بچوں کو، جنہیں عطیہ کرنے والا نہیں ملتا، ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کے لیے یورپی ہسپتال لے جایا جا سکے گا۔ اس پروگرام کے لیے سرکاری تیل کمپنی پیٹرولیوس ڈی وینزویلا نے فنڈ فراہم کرنا تھا لیکن 2018 سے اس پروگرام پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
وینزویلا میں نکولس مدورو کی حکومت اس پروگرام کے غیرفعال ہونے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کی وجہ سے اٹلی کی ہڈیوں کی گودے کی پیوندکاری سے متعلق ایسوسی ایشن اخراجات ادا نہیں کر سکتی۔
صحت کی تنظمیں کہتی ہیں کہ مسئلہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ڈاکٹر، غیرسرکاری تنظیمیں اور طبی عملے کے مطابق موجودہ صورت حال وینزویلا پر عائد پابندیوں کا نتیجہ ہے۔
تاہم یہ نوبت 2015 سے آئی ہے۔ ہسپتالوں کی حالت کم از کم 10 سال پہلے بگڑنا شروع ہوئی۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے 1557 مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ صحت کے مراکز میں 19 نومبر اور نو فروری کے درمیان 79 مرتبہ بجلی بند ہوئی۔
بیمار بچوں کے گرد جمع مائیں ایک خاندان کی طرح ہو گئی ہیں۔ بچوں کو صحیح ادویات نہ ملنے کی صورت میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دوردراز کے علاقوں سے مدد کے لیے وفاقی دارالحکومت آنے والی ماؤں کو اپنے گھروں میں رہنے کی پیش کش بھی کرتی ہیں۔
ایڈنی مارٹینیز نے نوریلسا اپیریشیو اور ان کے بیٹے اوسکر بوٹسٹا کی میزبانی کی۔ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا 16 سالہ لڑکے کو ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری کی بھی ضرورت تھی۔
10 سالہ کارلون رینکون کی والدہ جیکولین سلبران کہتی ہیں: ’مائیں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ بعض اوقات میں اس دوا کی تلاش میں ہسپتال جاتی ہوں جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ دوا مجھے دے دے تو میں اس احسان کا بدلہ چکاتی ہوں۔‘ کارلون رینکون ذہنی خلل اور خون کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ صحت مند ہو گئے تھے لیکن انہیں مزید دو برس تک کیموتھراپی کی ضرورت تھی۔ ہسپتال کا ایئرکنڈیشننگ نظام خراب ہونے کی وجہ سے ان کا علاج تعطل کا شکار ہے۔
پیوندکاری کے انتظار میں اس ماہ چار بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ مرنے والے بچوں میں سات سالہ رابرٹ ریڈونڈو بھی شامل ہیں جو مرض بگڑ جانے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ شدید قسم کی انفکیشن کے علاج کے لیے انہیں دو اینٹی بائیوٹک ادویات کی ضرورت تھی لیکن ان کی والدہ کو یہ دوائیں نہ مل سکیں۔
ان بچوں کی اموات نے پورے وینزویلا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 26 مئی کو ماہرینِ صحت اور والدین نے جے ایم ڈی لوس ریوس ہسپتال کے سامنے احتجاج کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ملک میں صحت کے اس بحران کا حل تلاش کیا جائے جو پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری ہے۔
© The Independent