جب مجھے کھانے کی میز پر کیڑے پیش کیے گئے

ہم سب طالب علم ایک میز پر کھانے کے منتظر تھے کہ ہمارے سامنے پلیٹ میں بھنے ہوئے کیڑے پیش کیے گئے جسے میرے ساتھیوں نے رغبت سے کھا لیا اور ہمیں صرف سیب پر اکتفا کرنا پڑا۔

26 نومبر، 2020 کی اس تصویر میں بیجنگ کے ایک مال میں خواتین کھانا کھا رہی ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے


ہمیں چین جاتے ہوئے بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ وہاں کھانے پینے کے معاملے میں احتیاط کرنا۔ چینی ہر شے کھا جاتے ہیں۔ کیا پتہ تمہیں بھی وہی سب کھلا دیں۔

ہم نے سر ہلایا اور چین آ گئے۔ پہلی ہی کلاس میں پروفیسر نے طالب علموں کو آرام دہ کرنے کے لیے ہم سے چین کے بارے میں سنی گئی باتیں پوچھیں۔

ہماری باری آئی تو ہم نے یہی بات دہرا دی۔ پروفیسر ایسے ہنسے جیسے ہم نے انہیں کوئی لطیفہ سنا دیا ہو۔ پھر کہنے لگے کہ دہائیوں پہلے شاید ایسا ہوتا ہو، اب نہیں ہوتا۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں۔

ہم بیجنگ میں تھے۔ وہاں عام خوراک وہی تھی جو باقی دنیا میں بھی عام تصور کی جاتی تھی۔ تاہم بیجنگ کے وانگ فوجنگ نامی علاقے میں اسی نام سے مشہور ایک فوڈ سٹریٹ میں سیاحوں کی تفریح کے لیے چند دکانیں حشرات کو بار بی کیو کر کے کھانے کے لیے پیش کرتی تھیں۔

ایک دن ہماری قسمت ہمیں چین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں لے گئی۔

ہمارے ایک پروفیسر وہاں کسی کام سے جا رہے تھے۔ وہ چند طالب علموں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم بھی بدقسمتی سے ان طالب علموں میں شامل تھے۔

اس گاؤں میں ہمارے میزبان نے ہم سب کے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔

کمرے کے وسط میں ایک بڑی سی گول میز رکھی ہوئی تھی۔ ہم سب اس میز کے گرد بیٹھ گئے اور مزیدار چینی پکوانوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر گزری تو ایک بیرا بڑی سی پلیٹ اٹھائے ہماری میز کی طرف آیا۔

اس نے وہ پلیٹ میز کے درمیان میں رکھ دی۔ دیکھا تو اس میں بھنے ہوئے کیڑے پڑے ہوئے تھے۔

ان کیڑوں کو غالباً زندہ ہی بھونا گیا تھا۔ اس دوران بہت سے کیڑوں کی جان نکل چکی تھی۔ کچھ کی باقی تھی۔ ان کی جانوں کو ہم نے اپنے سامنے نکلتے ہوئے دیکھا۔

اس کے بعد ہم نے تو میز سے منہ موڑ لیا۔ ہمارے ساتھی دلچسپی سے اس پلیٹ کو دیکھتے رہے۔

انہوں نے ان کیڑوں سے ایسے انصاف کیا جیسے وہ حشرات کھاتے ہوئے ہی بڑے ہوئے ہوں۔

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ ہماری ایک افریقی دوست ایک کیڑے کو کھاتے ہوئے مزے سے کرنچی کرنچی کہہ رہی تھی۔

دوسری دوست نے کیڑا اٹھاتے ہوئے کہا کیا ہوا، پروٹین ہی تو ہے۔ پھر وہ مزے سے اپنی پروٹین کھا گئی۔

ہم اتنی سی بھی ہمت نہیں کر پائے۔ اس دن ہماری قسمت میں بس ایک سیب آیا جو ہم نے صبر شکر کر کے کھا لیا۔

اس کھانے کے بعد ہمیں ہمارے پروفیسر نے بتایا کہ چین میں حشرات کھانے کی تاریخ قریباً دو ہزار سال پرانی ہے۔

ایک تحقیقاتی مقالے کے مطابق چین میں چیونٹیاں سونگ بادشاہت کے دور سے کھائی جا رہی ہیں۔

چین میں عام کھائے جانے والے کیڑوں میں ریشم کے کیڑے، ٹڈی دل، چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں اور ان کی مصنوعات شامل ہیں۔

چینی ان کیڑوں کو ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں کچا، ابال کر، تل کر، بھون کر یا پیس کر کھاتے ہیں۔

کچھ سال قبل چینی وزارتِ صحت نے ریشم کے کیڑے کے تیسری حالتِ جمود کو چینیوں کے لیے پروٹین حاصل کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا تھا۔

جنوبی چین کے کچھ حصوں میں چیونٹیوں سے بنے ہوئے کھانے بہت مشہور ہیں۔

چینیوں کے ہاں حشرات کو بھی کھانے کا ایک طریقہ موجود ہے۔ چینی حشرات کے انڈے اور بالغ حشرات کھانے سے پہلے سٹارٹر میں کھاتے ہیں اور مین کورس میں ان حشرات کے لاروا سے بنے ہوئے پکوان کھاتے ہیں۔

حشرات میں کافی مقدار میں پروٹین، چکنائی اور مائیکرو نیوٹرینٹس موجود ہوتے ہیں۔ سائنس کے مطابق یہ پروٹین حاصل کرنے کا اہم اور ماحول دوست ذریعہ ہیں۔

آپ جان کر حیران ہوں گے کہ حشرات کھانے کی روایت چین سے باہر بھی کئی ممالک میں موجود ہے۔

قدیم رومی اور یونانی اپنے کھانے میں حشرات کا استعمال کیا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موجودہ دور میں یورپ اور شمالی امریکہ سمیت ایشیا، آسٹریلیا، وسطی اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں رہنے والے بہت سے لوگ حشرات کھاتے ہیں۔

افریقہ جائیں تو وہاں گھانا میں موسمِ بہار کی بارشوں کے دوران پروں والی دیمک کو تل کر یا بھون کر کھانے کی روایت موجود ہے۔

جنوبی افریقہ میں کیڑے مکئی کے دلیے پر ڈال کر کھائے جاتے ہیں۔

جاپان میں ایک قسم کی مکھی کے لاروا کو چینی اور سویا ساس میں پکا کر کھایا جاتا ہے۔

انڈونیشیا میں ڈریگن فلائی کی ایک قسم کو ناریل کے دودھ میں پکا کر کھایا جاتا ہے۔

اس معاملے میں بدنامی صرف چین کے مقدر میں آئی ہے۔

اس واقعے کے بعد ہم نے چینی دیہاتی علاقوں میں جانے سے توبہ کر لی۔ ہم سیر و تفریح کے لیے صرف اور صرف شہری علاقوں میں جاتے تھے۔

اسی لیے ہم نے اس کے بعد  چین میں کبھی کھانے کی میز پر کیڑے نہیں دیکھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ