سپریم کورٹ میں لانگ مارچ سے متعلق عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’رپورٹوں میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن اگر نوٹس بھی کریں تو عمران خان کا پیش ہونا ضروری نہیں۔ سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔‘
عدالت نے عمران خان، ان کے وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری سے تحریری جواب مانگ لیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے۔ عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی خصوصی بینچ نے بدھ کو کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور حساس اداروں کی رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے۔ پولیس آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹوں پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے۔ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی؟
عامر رحمان نے کہا کہ عدالتی حکم 25 مئی کو شام چھ بجے آیا تھا۔ عمران خان کے چھ بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا۔
عامر رحمان نے بتایا کہ ’عمران خان نے دوسرا اعلان نو بج کر 54 منٹ پر کیا۔ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی۔ عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان کے بعد شیری مزاری، فواد چوہدری، صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔ عثمان ڈار، شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔ 26 مئی کو صبح جناح ایونیو پر چھ بجے ریلی ختم کی گئی۔ عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی۔ مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگے آ کر عمران خان نے ریلی ختم کی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی۔ عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔ ’عمران خان کو وکلا کی جانب سے کیا بتایا گیا، اصل سوال یہ ہے۔ عمران خان آ کر عدالت کو واضح کر دیں کہ کس نے کیا کہا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف یقین دہانی کروائی تھی۔ ’یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ کی بات میں وزن ہے۔ نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پر کہاں ہے؟ حکومتی درخواست پر عمران خان کو نوٹس جاری کریں گے۔ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔‘
عامر رحمان نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’عدالت نے فیصل چوہدری اور بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔‘
اس موقعے پر چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہو گا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔ تحریری مواد نہ ہو تو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں۔ جب جوابات آ جائیں گے تب تحریری طور پر عدالت کے پاس ریکارڈ ہو گا۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا جواب دینے کے لیے نوٹس دینا ضروری ہے؟ کیا نوٹس کے بغیر کسی سے جواب نہیں مانگا جا سکتا؟
انہوں نے مزید کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں کیا ایسی کوئی شق ہے کہ پہلے جواب مانگیں پھر نوٹس جاری کیا جائے؟ توہین عدالت کے قانون میں یا نوٹس ہوتا ہے یا پھر کیس خارج ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔ یہ کیس توہین عدالت کی تین اقسام میں سے سول ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں۔ حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا موقف سننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو جواب کے لیے خفیہ رپورٹوں کی فراہمی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’فریقین کو آئی ایس آئی، آئی بی اور اسلام آباد انتظامیہ کی رپورٹیں فراہم کی جائیں۔‘
عدالت نے عمران خان کے جمعے کے لانگ مارچ پر نوٹس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
کیس کا سیاق و سباق
یہ وزارت داخلہ کی جانب سے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست ہے۔ جس میں موقف تھا کہ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے درخواست دی تھی۔ اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ عمران خان ڈی چوک تک نہیں آئیں گے۔
یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی تھی۔ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیے گئے تھے۔