اگر پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو لگ بھگ ایک درجن کے قریب لانگ مارچ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف کیے گئے لیکن ان میں صرف تین ہی نتیجہ خیز رہے اور اس وقت کی حکومت کو لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا۔
اب تک تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے لانگ مارچ کے آپشن کو اپنے مطالبات کے لیے استعمال کیا لیکن اکا دکا کے سوا کسی کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
پاکستان میں لانگ مارچ کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن تقریباً 40 سال میں کسی جماعت یا طبقے نے ایک سے زیادہ مرتبہ لانگ مارچ نہیں کیے۔
یہ بھی ملکی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایک لانگ مارچ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دوران ہوا اور دوسرا فوجی صدر کے عدلیہ مخالف اقدامات کے نتیجے میں ہوا، البتہ جب لانگ مارچ ہوا اس وقت فوجی صدر جنرل پرویز مشرف عہدہ چھوڑ چکے تھے لیکن دونوں لانگ مارچ کامیاب ہوئے۔
1980 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے زکوٰۃ اور عشرہ آرڈیننس جاری کیا، جس پر اہل تشیع مسلک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
اس مطالبے کی بنیاد پر اہل تشیع نے باقاعدہ احتجاج کا فیصلہ کیا اور پانچ جولائی 1980 کو لانگ مارچ کیا۔
اس احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد میں سرکاری سرگرمیاں بہت حد تک متاثر ہوئیں، جس کے بعد بالآخر حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور اہل تشیع مسلک کو جنرل ضیا الحق کے جاری کردہ آرڈیننس سے استثنیٰ مل گیا۔
اس لانگ مارچ کے نیتجہ خیز ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں طویل عرصے تک کوئی لانگ مارچ نہیں کیا۔
12 برس کے طویل عرصے کے بعد سابق وزیراعظم اور اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا۔
بینظیر بھٹو خود کسی نہ کسی طرح چکما دے کر لیاقت باغ پہنچ گئیں لیکن یہ مارچ اس سے آگے نہ جاسکا اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے بغیر ہی ختم ہوگیا۔
ایک برس بعد بینظیر بھٹو نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا لیکن مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔
چار برس کے وقفے سے دوبارہ لانگ مارچ کیا گیا تاہم اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا۔ ستمبر 1996 میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں کیے گئے اس لانگ مارچ کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا۔
اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو تین دن تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے رہائشیوں کا سامنا پہلی بار آنسو گیس سے ہوا۔
جماعت اسلامی نے اپنے ملین مارچ کی کامیابی کے لیے نرالی حکمت عملی اپنائی۔ انہوں نے امیر جماعت اسلامی کے ہم شکلوں کو تلاش کیا اور انہیں وہ کپڑے پہنائے تاکہ قاضی حسین احمد کو گرفتاری سے بچایا جا سکے۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے کے تیسرے دن مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے موجودہ ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی گئی۔
جماعت اسلامی کے کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے اور وہیں مغرب کی نماز ادا کی۔ مظاہرین کے سلام پھیرنے کے ساتھ ہی ہوا میں آنسو گیس کے شیل چلنے لگے۔ اس کے بعد یہ لانگ مارچ ختم ہو گیا۔
لانگ مارچ کے ایک مہینے بعد اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ حکومت کے خاتمے کے بعد اس لانگ مارچ کو نتائج کے اعتبار سے کامیاب تصور کیا گیا۔
اس لانگ مارچ کے بعد پھر لانگ مارچ کے حوالے سے ایک طویل خاموشی رہی اور پھر ایک برس بعد وکلا تحریک کے دوران ایک نہیں بلکہ دو لانگ مارچ کیے گئے اور ان دونوں میں تقریباً آٹھ ماہ سے زیادہ کا وقفہ رہا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے آنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بحال نہیں کیا گیا، جس پر وکلا قیادت نے 2008 کے وسط میں لانگ مارچ کیا۔
یہ لانگ مارچ بھی لاہور سے شروع ہوا۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور مسلم لیگ ن وکلا تحریک کی بھرپور حمایت کر رہی تھی۔ اسی وجہ سے لانگ مارچ کو کسی مقام پر کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں رہا۔
شام کے بعد مینار پاکستان سے شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ اگلے دن دوپہر کے بعد اسلام آباد پہنچا۔ راستے میں عام لوگوں نے لانگ مارچ کے شرکا کی اپنی اپنی حیثیت سے آؤ بھگت کی۔
رات کو پارلیمنٹ کے سامنے نواز شریف اور وکلا قیادت نے خطاب کیا جس کے بعد لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان نے وکلا میں بے حد مایوسی پیدا کی کیونکہ وکلا دھرنے کی غرض سے اسلام آباد آئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوان اور وکلا اس اعلان پر نہ صرف غمگین ہوئے بلکہ اپنی قیادت کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
وکلا کے اس لانگ مارچ کا وکلا تحریک کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا وکلا میں مایوسی پیدا ہوئی، تاہم مارچ میں دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں تھی بلکہ پیپلز پارٹی نے گورنر راج نافذ کیا تھا۔
اسی وجہ سے ماضی کے برعکس وکلا لانگ مارچ کو شدید نوعیت کی دشواری اور انتظامیہ کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
پنجاب بھر میں لانگ مارچ کو روکنے کے لیے راستے بند کیے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری تھی۔ وکلا قیادت جس میں اعتراز احسن اور دیگر وکیل رہنما شامل تھے، کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔
تاہم یہ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا اور گوجرانوالہ پہنچا ہی تھا کہ اس وقت کی عسکری قیادت نے ٹیلی فون کال کے ذریعے بتایا کہ ججز بحال ہو رہے ہیں اور کچھ دیر بعد اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس کا اعلان کریں گے۔ اس طرح یہ لانگ مارچ اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب رہا اور ججز بحال ہوئے۔
2013 سے 2022 تک ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور مسلم لیگ ن نے لانگ مارچ کیے ہیں جن کا ایک سیاسی سرگرمی کے سوا کوئی نیتجہ نہیں نکلا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے دو مرتبہ لانگ مارچ کیا۔ اس کے علاوہ لاپتہ افراد کے لیے ماما قدیر کی قیادت میں بھی لانگ مارچ ہوا۔
سال 2022 اس اعتبار سے منفرد ہے۔ اس برس لگ بھگ تمام بڑی پارلیمانی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے لانگ مارچ کیے۔
ان میں پی ٹی آئی وہ واحد جماعت ہے جو پانچ ماہ کے وقفے سے دوسری مرتبہ لانگ مارچ کر رہی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اب تیسرا لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلا مارچ 2014 میں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر کیا تھا۔
تحریک انصاف نے دوسرا لانگ مارچ پانچ ماہ پہلے 25 مئی کو کیا تھا، جب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی جگہ مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور تحریک انصاف کو لاہور میں شدید انتظامی مزاحمت کا سامنا رہا۔
اس مرتبہ 28 اکتوبر کو عمران خان تیسرا لانگ مارچ کر رہے ہیں اور اس کا آغاز پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے ہوگا۔ اس وقت پنجاب میں عمران خان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔