ایف آئی آر نہ ہونے سے عمران خان کا کیس کمزور ہو سکتا ہے: ماہرین

قانونی ماہرین کے مطابق حملے کے تین روز گزرنے کے بعد بھی مقدمہ درج نہ ہونے سے عمران خان کے کیس کو نقصان جبکہ ملزم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

عمران خان یکم نومبر 2022 کو گوجرانوالہ میں خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

تین روز گزرنے کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا جبکہ اس کیس کا ایک ملزم ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے کے باوجود پولیس کی حراست میں ہے۔

اس تاخیر کی وجہ سے قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان کے کیس کو نقصان جبکہ ملزم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ 

ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہو سکی؟ 

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان ایف آئی آر میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور آئی آیس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام بطور مرکزی ملزم درج کروانا چاہتے تھے جس پر پی ٹی آئی کے انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی راضی نہ تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان تناؤ مزید بڑھے گا۔  

جمعے کی رات کو بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان سے صحافی مبشر بخاری نے جب سوال کیا کہ  پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہو رہی تو عمران خان نے جواب دیا ’پولیس سے پوچھیں تو کہتے ہیں اوپر سے حکم ہے۔ دوسرے اہلکاروں سے بات کریں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم ہے جبکہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ بے بس ہیں۔‘

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ سے متعدد بار رابطہ کیا اور وائس میسج بھی بھیجے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا البتہ جمعے کی رات ایک نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک پولیس کو اس کیس کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

پنجاب حکومت کی ترجمان اور پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے وکیل زبیر نیازی کی سربراہی میں درخواست برائے اندراج مقدمہ لے کر متعلقہ پولیس سٹیشن گئے لیکن وہ درخواست وصول نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست عمران خان کی ہدایت کے مطابق ہی لکھی گئی تھی۔  

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست میں کچھ نام ایسے ہیں جن کے خلاف پولیس مقدمہ درج کرنا نہیں چاہتی۔ ’ہم اس تھانے کا مقدمہ درج ہونے تک گھیراؤ کریں گے۔‘ 

کیا پولیس اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر سکتی ہے؟ 

اس حوالے سے ایڈوکیٹ فرہاد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’اس کیس میں فوری ایف آئی آر کاٹنا پولیس کا فرض تھا کیونکہ پولیس اس مارچ کو سکیورٹی فراہم کر رہی تھی۔ دیکھا جائے تو پولیس پارٹی پر بھی فائرنگ ہوئی ہے۔ پولیس اس کیس میں اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ اس وقت جو ملزم پولیس تحویل میں ہے اسے ایسے کیس میں پکڑا ہوا ہے جو ابھی تک رجسٹر ہی نہیں ہوا۔ جب تک ایف آئی آر درج نہ ہو تفتیش شروع نہیں ہو سکتی۔‘

’پولیس آرڈر کے مطابق آپریشنل ونگ نے صرف ایف آئی آر کاٹنی ہوتی ہے جبکہ اس کی تفتیش انویسٹیگیشن ونگ نے کرنی ہوتی ہے۔‘ 

ایف آئی آر کے بغیر کیا زیر حراست ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے؟ کیا ملزم رہا ہو سکتا ہے؟ 

فرہاد علی شاہ ان سوالات کے جوابات میں کہتے ہیں ’کسی بھی شخص کو اگر گرفتار کیا گیا ہے تواس کو 24 گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملزم کی اب تک گرفتاری غیر قانونی ہے کیونکہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور باقاعدہ تفتیش کا عمل شروع نہیں ہوسکا۔ کیونکہ گرفتاری، ریمانڈ اور تفتیش تک کا عمل ایف آئی آر درج ہونے سے مشروط ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے تو اس وقت اس ملزم کا پولیس کی تحویل میں ہونا حبس بے جا کے زمرے میں آتا ہے اور اگر کوئی بھی شخص اس کی پیروی کرے اور عدالتی بیلف کا استعمال کیا جائے تو اس شخص کو رہائی مل سکتی ہے کیونکہ اس کے خلاف ابھی تک کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا۔ اور ان سب باتوں کا نقصان پراسیکیوشن کو ہو گا۔

’جہاں تک کسی کا نام ایف آئی آر میں ڈالنے یا نا ڈالنے کا سوال ہے۔ اس کے لیے بھی سی آر پی سی کی شق 154 کے تحت ایف آئی آر کے اندراج سے مشروط ہے کیونکہ ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے کوئی انکوائری نہیں ہو سکتی۔‘ 

ایف آئی درج ہونے سے پہلے ملزم کا بیان ٹی وی پر چلانے اور ایف آئی آر میں تاخیر کا نقصان کس کو اور فائدہ کس کو؟ 

ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ابھی تک تو ایف آئی آر ہی رجسٹر نہیں ہوئی۔ دوسری بات اگر کیس میں کوئی شخص ایف آئی آر ہونے تک نامعلوم ہوتا اور اس کی تصویر میڈیا پر آتی تو پھر یہ موٹر وے ریپ کیس والی صورت حال بنتی کیونکہ اس کی شناخت پریڈ ہونی تھی اور انہوں نے پہلے ہی اس کی تصویر نشر کر دی تھی جس کی وجہ سے اس کا کیس خراب ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کیس میں ملزم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا، تھانے میں کھڑا کر کے اس کا ویڈیو بیان بھی جاری کر دیا اور ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’ایف آئی آر میں تاخیر، عینی شاہدین کی گواہیوں میں تاخیر وغیرہ کے ذریعے میرے خیال سے پہلے دن سے کیس کے ثبوتوں کو ضائع کیا گیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ جو لوگ زخمی ہوئے ہیں ان لوگوں کے میڈیکل جہاں واقعہ ہوا وہاں کے متعلقہ ہسپتال سے ہونے تھے لیکن عمران خان لاہور آ گئے اور شوکت خانم سے نجی طور پر اپنا علاج کروانا شروع کر دیا تو سرکاری طور پر ان کے زخم کل کو ثابت نہیں ہو سکتے اور اس کی سزا ملزم کو نہیں مل سکتی۔‘ 

فرہاد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان اس شخص کو پہنچا جو وہاں  گولی لگنے سے قتل ہوا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے وہاں کھڑے تھے۔ اصل میں کیس اس شخص کا ضائع ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان کے کیس کی پیروی نہیں ہو سکتی۔‘

’اس کیس میں پہلے دن سے پولیس نے شکوک کی بنیاد پر ساری کارروائی کی ہے جس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہوتا ہے۔‘

فرہاد نے سپریم کورٹ  کے ایک کیس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ طارق پرویز کیس پی ایل ڈی 2015 سپریم کورٹ 1345 کے فیصلے کے مطابق درجنوں شکوک کی بجائے کوئی ایک شک بھی کسی ملزم کو رہا ہونے میں فائدہ دے سکتا ہے۔ ’پولیس پہلے دن سے اس کیس کے ثبوتوں کو ضائع کر رہی ہے۔‘  

کیا ایف آئی آر کے بغیر تفتیش شروع کی جاسکتی ہے؟ 

ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ کے مطابق ’تفتیش ایف آئی آر رجسٹر ہونے کے بعد ہونی ہوتی ہے۔ پھر گولیوں کے خول جمع کیے جاتے ہیں، خون کے نمونے اکٹھے کیے جانے ہوتے ہیں۔ جائے وقوع کی انسپیکشن ہونی ہوتی ہے لیکن اب یہاں ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی تو شواہد کیسے اکٹھے ہوں گے؟ اس ساری صورت حال میں کریمنل جسٹس سسٹم کی نفی کی جارہی ہے۔ اس کا فائدہ ملزم کو ہو گا۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان