سردیوں کی آمد کے ساتھ لنڈی کوتل میں روایتی انگیٹھیاں بننا اور بکنا شروع ہو گئی ہیں۔
مقامی کاریگروں کے مطابق لنڈی کوتل میں 12 ہزار تک انگیٹھیاں بنتی ہیں جن کو مقامی زبان میں ’بخاری‘ کہتے ہیں۔
لنڈی کوتل میں بننے والی انگیٹھیاں جمرود، وادی تیراہ، شلمان اور دیگر سرد اور پسماندہ علاقوں کو بھی جاتے ہیں جہاں بجلی اور گیس دستیاب نہیں ہے۔
اسی انگیٹھی کو سردی سے بچنے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لنڈی کوتل کی انگیٹھیاں پہلے افغانستان بھی برآمد کی جاتی تھیں جبکہ اب وہاں مقامی کاریگر خود بناتے ہیں۔
نور اللہ شنواری گذشتہ 20 سالوں سے لنڈی کوتل بازار میں انگیٹھیاں بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے، اکثر یہاں سردی اتنی برھتی ہے کہ ندی نالوں میں پانی جم جاتا ہے، اسی وجہ سے یہاں کے لوگ انگیٹھیاں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
نور اللہ شنواری بتاتے ہیں کہ یہاں چوں کہ گیس اور بجلی نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ لوگ اسی انگیٹھی کے سہارے سردی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جو 550 روپے سے لے کر 12 ہزار روپے تک فروخت ہوتی ہیں۔
انگیٹھیاں بنانے کے لیے خراب فریزر اور فریج کی چادر استعمال کی جاتی ہے اور ان ہی چادروں سے وہ انگیٹھیاں بناتے ہیں۔
نوراللہ شنواری کہتے ہیں کہ ان کا سیزن دسمبر سے شروع ہوکر مارچ تک چلتا ہے۔ اکثر اوقات مارچ میں برف باری ہوتی ہے جس کی وجہ سے سیزن ایک ماہ طویل ہوجاتا ہے۔
ان ہی چار پانچ مہینوں میں وہ دو سے ڈھائی ہزار انگیٹھیاں فروخت کرتے ہیں۔ لنڈی کوتل میں چار پانچ دکانیں اور بھی ہیں جو انگیٹھیاں بنانے کا کام کرتی ہیں اور مجموعی طور پر 12 ہزار کے قریب انگیٹھیاں بنتی ہیں۔
اس سے کئی کام ایک ساتھ لیے جاتے ہیں، اس پر کھانا پکایا جاتا ہے اور اسے ماحول کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک انگٰیٹھی 22 فٹ کا کمرہ گرم کر سکتی ہے۔ گیس کے مقابلے میں یہ بہت کارآمد ہے کیوں کہ گیس جب تک جلتی ہے کمرہ گرم رہتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انگیٹھی میں دولکڑیاں جلا کر کمرہ ساری رات گرم رکھا جا سکتا ہے۔
لنڈی کوتل کے رہائشی زیب اللہ شنواری کہتے ہیں کہ اس سے کمرے میں دھواں نہیں پھیلتا کیوں کہ ایک پائپ باہر کی جانب نکلا ہوتا ہے جس سے دھواں اوپر جاتا ہے۔