پولیو وائرس کے باعث معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حضرت ولی شاہ نے بچوں کو اس موذی مرض کی ویکسین پلانا اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔
ضلع باجوڑ میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کرنے والے والدین کو قائل کرنے کی خاطر حضرت شاہ ولی کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں۔
سرکاری سکول میں بحیثیت استاد خدمات سرانجام دینے والے حضرت ولی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’مجھے اطلاع ملتی ہے کہ کہیں والدین پولیو کے قطرے پلوانے سے انکاری ہیں تو میں ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور انہیں اپنی مثال دیتا ہوں کہ اپنے بچوں کا حشر مجھ جیسا نہ کریں۔‘
باجوڑ کے ہی رہائشی گل شیر ہمیشہ سے اپنے اور دوسروں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتے رہے تھے۔
تاہم 2011 میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے 55 سالہ قبائلی کو نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی اولاد کو بھی یہ قطرے پلوانے کا حامی بنا دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں گل شیر نے بتایا کہ 2011 میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران حضرت ولی شاہ پولیو ٹیموں کے ساتھ ان کے گاؤں آئے اور والدین کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’پہلے میں سمجھتا تھا کہ پولیو کے قطرے کوئی بین الاقوامی سازش ہے، لیکن حضرت ولی شاہ کی معذوری اور ان کا عزم کو دیکھ کر میری آنکھیں کھل گئیں اور میرے خیالات تبدیل ہوئے۔‘
حضرت ولی شاہ کی کوششوں کی وجہ سے گل شیر اور ان کا پورا خاندان اب بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے کے حامی بن گئے ہیں۔
حضرت ولی شاہ کی معذوری
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کا سلسلہ 1994 میں شروع ہوا، جب حضرت ولی شاہ معذوری کا نشانہ بن چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بچپن میں پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاتے تھے، جس کے باعث وہ اس وائرس کا شکار ہوئے، جس نے ان کی ٹانگوں کو متاثر کیا اور وہ معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’لیکن میں نہیں چاہتا کہ دوسرا کوئی بھی بچہ اس موذی مرض کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے دوسروں کا محتاج ہو اور معاشرے پر بوجھ بنے، اسی لیے میں انکاری والدین کے پاس جاتا ہوں۔‘
حضرت ولی شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت پولیو کے قطروں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے، اس لیے والدین کو بچوں کو اس نعمت سے محروم نہیں رکھنا چاہیے۔
’جب بھی آپ کے گھر پولیو کی ٹیم آئے تو ان کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے بچوں کو دو دو قطرے ضرور پلوائیں۔‘
تعلیم کا حصول
حضرت ولی شاہ ایک سال کی عمر میں پولیو کے وائرس سے متاثر ہوئے تھے اور ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے، تاہم انہوں نے ہار نہیں مانی اور اسے ایک عارضی مشکل سمجھتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ گھر کے قریب واقع پرائمری سکول تک آنے جانے میں انہیں مشکل پیش آتی تھی۔
’یہ میرے لیے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں تھا، جو میرے والدین کی غربت کے باعث زیادہ سنگین ہو گیا۔‘
حضرت ولی شاہ نے کہا کہ غریب گھرانے سے تعلق ہونے کے باعث وہ وہیل چیئر جیسی لگژری کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے بیساکھیوں کا جوڑا ان کے لیے خریدا اور وہی حضرت ولی شاہ کا سہارا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیو سے متاثرہ اس نوجوان نے ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں ایک سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بعد ازاں محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔
اب وہ اپنے ہی گاؤں میں گورنمنٹ پرائمری سکول میں استاد کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حضرت ولی شاہ کی طرح پاکستان میں پولیو سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد موجود ہیں، جبکہ کئی بچے اب بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دنیا میں وہ دو ملک ہیں جہاں پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے، جبکہ باقی ممالک سے یہ مرض ختم ہوگیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2022 تک پاکستان میں کم از کم 20 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد صرف ایک تھی اور 2020 اور 2019 میں بالترتیب 84 اور 147 تھی۔
عالمی ادارہ صحت کسی ملک میں متواتر دو سال تک پولیو کا نیا مریض دریافت نہ ہونے کی صورت میں اسے اس بیماری سے آزاد تصور کرتا ہے۔
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی بیشتر مہمات چلائی جاتی ہیں، جن میں لاکھوں ننھے فرشتوں کو موذی وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔