ارشد شریف کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے: سربراہ پمز ہسپتال

پمز ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا ہے کہ کینیا میں قتل ہونے والے ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم پر 12 زخموں کے نشانات ملے ہیں۔

23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے متعلق مقامی میڈیا میں سامنے آنے والی تفصیلات نے کئی سوالات اٹھائے ہیں (تصویر: فیس بک/ارشد شریف)

پاکستانی صحافی ارشد شریف پر کینیا میں قتل سے قبل تشدد کی اطلاعات میڈیا میں سامنے آنے کے بعد اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے سربراہ نے تصدیق کی کہ ارشد شریف کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے۔ 

ارشد شریف کو 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں پولیس نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ کینین پولیس نے اس واقعے کو ’غلطی‘ قرار دیا تھا۔ 

نجی ٹیلی وژن دنیا نیوز کے اینکر کامران شاہد نے نو نومبر کو اپنے پروگرام میں ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور جسم کے کچھ حصوں کی تصاویر نشر کی تھیں جو بظاہر تشدد زدہ نظر آ رہے تھے۔ اس کے بعد ان کے مستند ہونے یا نہ ہونے سے متعلق بحث کا آغاز ہوا۔ 

جہاں اسے آزادی صحافت پر قدغن کے مترادف ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں ارشد شریف کے کینیا میں قیام اور پاکستان اور کینیا میں کیے گئے پوسٹ مارٹم کا موازنہ بھی شروع ہو گیا۔ 

چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی ارشد شریف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو ’ٹارگٹڈ قتل‘ قرار دے چکے ہیں لیکن پوسٹ مارٹم کی تصاویر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ 

جسم پر زخموں کے نشانات 

پمز کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو کو ارشد شریف کے جسم پر زخموں نشانات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا: ’بظاہر لگتا ہے کہ ان پر تشدد ہوا ہے۔ پروفیسر ایس ایچ وقار کی سربراہی میں پوسٹ مارٹم ہوا اور ان کے مطابق جسم پر 12 نشانات ملے ہیں۔‘ 

ڈاکٹر خالد مسعود نے نشانات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا: ’12 نشانات میں دائیں ہاتھ کی کلائی پر زخموں کے نشان اور چارانگلیوں کے ناخن نہیں تھے جبکہ بائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی پر بھی زخموں کے نشان ہیں۔ یہ تمام چیزیں میڈیکل بورڈ کو بھیج دی گئی ہیں اور فرانزک کیے جانے کے بعد ہی بہتر طریقے سے بتایا جا سکے گا۔‘ 

ان کے مطابق: ’ہمیں کینیا میں کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں ملی، اگر سرکاری طور پر مل جائے تو پتہ چل سکتا ہے کہ کہیں ناخن انہوں نے نہ لیے ہوں۔ جب ہمیں لاش ملی تب ناخن نہیں تھے اس لیے ہم نے ان کی نشاندہی کرنا بہتر سمجھی۔‘ 

لیکن ڈاکٹر خالد نے بعد جیو ٹی وی کے پروگرام کے گفتگو میں کہا کہ زخموں کو دیکھ کر تو بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ وہ تشدد کے نشانات ہو سکتے ہیں لیکن اُن کے بقول یہ حساس معاملہ ہے اور اس بارے میں فرانزک رپورٹ کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ 

تاحال تشدد کی تصدیق سے متعلق نہ تو باضابطہ کوئی بیان جاری کیا گیا اور نا ہی کوئی سرکاری رپورٹ سامنے آئی ہے لیکن مقتول صحافی کے جسم پر زخموں کی تصدیق کی گئی ہے۔ 

ایک پاکستانی فیکٹ چیک ویب سائٹ ’سوچ فیکٹ چیک‘ نے بھی کہا ہے کہ ارشد شریف پر قتل سے قبل تشدد کے خبروں میں صداقت نہیں ہے۔ 

دوسری جانب ارشد شریف کے دوست حسن ایوب خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’غسل کے دوران ان کے جسم کے کئی حصوں پرنشانات تھے۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب تک خرم اور وقار سے تحقیقات نہیں کی جاتیں اور انہیں پاکستان نہیں لایا جاتا، یہ کیس حل نہیں ہوسکتا۔ میں، ارشد شریف کی ٹیم اور ان کے گھر والے ان دونوں کو نہیں جانتے۔‘ 

پوسٹ مارٹم رپورٹ دو کے بجائے پانچ صفحات پر مشتمل 

اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کا حوالہ دیا گیا ہے؟‘ پمز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ منظر عام پر آنے والے صفحات دراصل مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں بلکہ یہ رپورٹ پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ 

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ارشد شریف کے اہل خانہ نے پمز انتظامیہ کی جانب سے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تفصیلات شیئر نہ کرنے کا بیان جاری کیا ہے۔ 

 اس پر ڈاکٹر خالد مسعود نے بتایا: ’ہمارے پاس نہ ارشد شریف کی والدہ آئیں اور نہ ہی انہوں نے رپورٹ حاصل کرنے کے لیے کوئی درخواست دی۔ ان کی اہلیہ نے پہلی درخواست دی لیکن اس کے بعد وہ بھی نہیں آئیں۔ یہ ان کا حق ہے جو ہم انہیں دیں گے۔ یہ ایسی چیز نہیں جو ڈھکی چھپی ہو۔‘ 

پوسٹ مارٹم رپورٹ لینے کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ 

پمز کے سربراہ کے مطابق: ’قانونی طور پر متعلقہ تھانہ ہسپتال کو پوسٹ مارٹم کرنے کا کہتا ہے اور تھانے کو لواحقین پوسٹ مارٹم کروانے کا کہتے ہیں۔ چونکہ یہ ہائی پروفائل کیس ہے اس لیے پولیس سٹیشن رمنا اور ارشد شریف کی اہلیہ نے درخواست دی تھی۔ دونوں کی درخواستیں ہمارے پاس موجود ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’قانون کے مطابق حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد اسے تھانے میں جمع کروایا جائے گا اور اسے آنے میں 15 یا اس سے زائد دن لگ سکتے ہیں۔‘ 

’تصاویر پمز ہسپتال سے لیک ہوئیں‘ 

ارشد شریف کے قتل کے بعد کی تصاویر لیک کیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں پمز کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ انہیں اس حوالے سے گذشتہ روز پتہ چلا۔ 

ان کے مطابق: ’یہ تصاویر پمز ہسپتال سے ہی لیک ہوئی ہیں۔ لیک کرنے والے سے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یہ تصاویر پوسٹ مارٹم میں لی گئی تصاویر سے کافی ملتی جلتی ہیں۔‘ 

حکومت کا کیا کہنا ہے؟ 

ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے دو افراد پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کو کینیا بھیجا گیا تھا، جس کا کام ارشد شریف کے قتل سے متعلق حقائق کو منظر عام پر لانا ہے۔ 

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قتل کا واقعہ ناکے سے 100 کلومیٹر دور مخالف سمت میں ہوا، جس کا اغوا والی بات سے کوئی تعلق نہیں۔‘ 

’بتایا گیا کہ سڑک پر ناکہ لگا ہوا تھا، وہاں کوئی ناکہ نہیں لگا ہوا تھا۔ ہماری ٹیم اس جگہ پورا دن رہی، وہاں سے پورے دن میں صرف تین گاڑیاں گزریں۔ یہ ایک ایسی سڑک ہے جہاں ناکہ لگنے کا جواز نہیں بنتا۔‘ 

بعد ازاں نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو کے مطابق رانا ثنا اللہ نے کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کرنے والے بھائیوں وقار اور خرم پر بھی اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’یا تو انہوں نے ارشد شریف پر پہلے تشدد کرکے انہیں ہلاک کیا اور پولیس کی مدد سے گاڑی میں بٹھا کر ڈراما کیا اور واقعے کو دوسرا رنگ دیا یا پھر انہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر چلتی گاڑی پر فائرنگ کروا کر انہیں قتل کیا۔ ہماری ٹیم کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق کینیا کی پولیس ایسے کاموں میں ملوث رہتی ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خرم کی کینین پولیس کے بیان کی تائید 

وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’خرم نامی شخص جو واقعے کے وقت ارشد شریف کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے، نے کینیا پولیس کے ’شناخت میں غلطی پر فائرنگ‘ سے متعلق بیان کی تائید کی ہے۔‘ 

رانا ثنا اللہ کے مطابق: ’جب ہماری تحقیقاتی ٹیم نے ان سے سوالات پوچھنے شروع کیے تو انہوں نے جوابات دینے سےانکار کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ارشد شریف کے کینیا پہنچنے (19 اگست) سے لے کر قتل ہونے کے دن تک ان دونوں افراد کا ٹیلی فون ڈیٹا نکالا جائے۔ کینیا کی پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا۔‘ 

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’بظاہر ان دونوں بھائیوں نے پولیس کے ساتھ مل کر جرم کو چھپانے کے لیے یہ سب کیا ہے۔ ان بھائیوں کا رابطہ کس کس کے ساتھ تھا؟ ٹیم سے ملاقات کے بعد میرا خیال ہے کہ وزیراعظم کو درخواست کرنی چاہیے کہ یا ہماری ٹیم کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کریں یا تحقیقات کروا دیں۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے کینیا کے پولیس حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ 

تحقیقاتی ٹیم دبئی روانہ ہو گی 

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ ’صورت حال کے پیش نظر تحقیقاتی ٹیم کو اب دبئی بھیجا جائے گا، جہاں وہ ارشد شریف کے دبئی پہنچنے کے دس دن بعد ہی کینیا بھیج دیے جانے سے متعلق حقائق سامنے لائے گی۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’کینیا میں ’آن ارائیول‘ ویزہ نہیں تھا بلکہ ان کا ویزہ وقار احمد نے سپانسر کیا تھا اور نیوز چینل اے آر وائی کے طارق وسیع نے وقار احمد کو کہا تھا کہ ’یہ ہمارا بندہ ہے، اسے سپانسر کریں اور اپنے پاس رکھیں۔‘ 

رانا ثنا کے مطابق: ’طارق وسیع اور (چینل کے سی ای او) سلمان اقبال دبئی میں موجود ہیں۔‘ 

انہوں نے  مزید بتایا کہ ارشد شریف وقار اور خرم کو نہیں طارق وسیع کوجانتے تھے۔ واقعہ ہونے کے فوراً بعد خرم نے طارق وسیع کو فون کیا، جس کے بعد انہوں نے واقعے کی اطلاع سلمان اقبال کو دی اور انہوں نے بعد ازاں خرم کو ٹیلی فون کال کی۔‘ 

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’واقعے کے بعد چند چینلز پر ’حادثے‘ کی خبر نشر کی گئی جو غلط تھی۔‘ 

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان