حال ہی میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستان کی کاروباری خواتین کو تین ماہ کے ایک تربیتی کورس میں اپنا آئیڈیا درج کرانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
مقصود یہ تھا کہ نہ صرف انہیں سیکھنے کا موقع ملے گا بلکہ جن خواتین کے پاس بہترین منصوبہ ہو، انہیں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کے تحت مالی اعانت بھی دی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق اس پروگرام میں پاکستان بھر سے 80 خواتین نے حصہ لیا جن کی پہلے، دوسرے اور تیسرے مرحلے میں کامیابی کے بعد صرف چار خواتین کو فاتح قرار دیا گیا۔
متذکرہ چار خواتین میں سے پہلا نمبر حاصل کرنے والی ضلع خیبر کی آمنہ آفریدی ہیں جو اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلرز کر رہی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ ان کا آئیڈیا ’بانس‘ کے برش کا تھا جس پر انہوں نے مختلف زاویوں سے تحقیق کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے انہوں نے مارکیٹ میں دستیاب اشیا پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی اور پھر یہ جاننے کی کوشش کی ان میں ایسی کیا کمی ہے کہ جسے ایک نئے آئیڈیے کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔
آمنہ آفریدی کے مطابق تحقیق کے دوران ماحول دوست آئیڈیا متعارف کروانے پر ان کی توجہ مرکوز رہی۔
‘دراصل ہمارے اساتذہ ہمیں بتاتے ہیں، کہ ضروری نہیں کہ ہم صرف ایک بہت ہی انوکھا، نیا آئیڈیا متعارف کرانے کا سوچیں، بلکہ مارکیٹ میں پہلے سے موجود اشیا میں تبدیلی لانا بھی ایک ایجاد ہے۔ اس بات نے مجھے حوصلہ دیااور ٹوتھ برش میں بانس کی لکڑی لگانے کا خیال متعارف کیا۔‘
آفریدی نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں پلاسٹک وافر مقدار میں درآمد کیا جاتا ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسی سبب انہوں نے بانس کے ڈنڈے پر نائیلون کے ریشے لگانے کا آئیڈیا پیش کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بانس سے بنا دانتوں کا برش بھلا کیسے ماحول دوست ہوسکتا ہے، تو آمنہ آفریدی نے بتایا کہ دراصل بانس کی لکڑی مہینوں کے اندر گَل جاتی ہے، جبکہ پلاسٹک کے بنے برش سینکڑوں سال بعد بھی نہیں گلتے۔
انہوں نےمزید کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس برش میں نائیلون کے ریشے لگنے کے بعد یہ پلاسٹک سے پاک کیسے ہوا، اس کا جواب یہ ہے کہ بانس سے دانت صاف نہیں کیا جا سکتا، اور پورا برش لکڑی کا نہیں بن سکتا تھا۔
’پوری دنیا میں ابھی پلاسٹک کا مکمل نعم البدل نہیں ڈھونڈا جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس برش میں پلاسٹک کا بڑا حصہ گلنے والے مواد کا ہوگا اور صرف ایک چھوٹا حصہ پلاسٹک کا ہوگا۔‘
آمنہ آفریدی کے مطابق، مسواک اور اس مخصوص برش میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں ڈیزائن نہیں ہوتا، باوجود اس حقیقت کے کہ وہ ایک فائدہ مند چیز ہے۔ ’مسواک کو ایک اکثریت ناپسند کرتی ہے، کیونکہ شاید لوگ ماڈرن اشیا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ مسواک کی افادیت زیادہ ہے۔‘
آمنہ آفریدی نے بتایا کہ اول نمبر حاصل کرنے کے بعد انہیں تقریباً بارہ لاکھ روپے کا گرانٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، جو کہ بہت جلد امریکی سفارتخانے کے ذریعے انہیں ادا کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس رقم میں وہ کسی ایک کمپنی کی مدد سے بانس کا ٹوتھ برش تیار کر کے اس کی مارکیٹنگ کریں گی۔