امریکہ کے صدر جوبائیڈن پیر کو انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔
اس ملاقات کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے ’محفوظ راستے‘ کا تعین کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کرونا وائرس کے بعد دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی پہلی اہم سربراہ کانفرنس ہو رہی ہے۔
گذشتہ تین سال میں چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیوں کہ چین دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی زیر قیادت رائج نظام کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ طاقتور اور جارح ہو گیا ہے۔
جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر پیر کو ہونے والے بائیڈن شی ملاقات کے بارے میں ماضی میں امریکی اور سابق سوویت یونین کے رہنماؤں کے درمیان جرمن شہر پوٹسڈم، ویانا یا یالٹا میں ہونے والی ان ملاقاتوں جیسا تاثر پایا جاتا ہے جن میں لاکھوں افراد کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا۔
بائیڈن اس ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی ’ریڈ لائنوں‘ کو واضح کر چکے ہیں۔
امریکی اور چینی صدور کے درمیان ملاقات سے کئی گھنٹے پہلے وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا ہے کہ ملاقات کا بنیادی مقصد ’راستے کے واضح قواعد‘ اور ’محفوظ راستوں‘ کا تعین ہے۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’ہم وہ سب کچھ کر رہے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مقابلہ لڑائی میں تبدیل نہیں ہوگا۔‘
توقع کی جا رہی ہے کہ بائیڈن چین کو اس کے اتحادی شمالی کوریا کو لگام دینے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ ریکارڈ توڑ میزائل تجربات کے بعد خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ پیانگ یانگ جلد ہی اپنا ساتواں جوہری تجربہ کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہو سکتا ہے کہ شی مدد کے لیے تیار نہ ہوں۔ وہ حال ہی میں تاریخی طور چین کے تیسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس انتخاب نے انہیں کئی نسلوں میں چین کا سب سے زیادہ طاقتور رہنما بنا دیا ہے۔
بائیڈن کو اس خبر سے حوصلہ ملا ہے کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی نے وسط مدتی انتخابات میں توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد امریکی سینیٹ کا کنٹرول برقرار رکھا ہے، اگرچہ وہ داخلی سیاست میں مسلسل کمزور ہیں۔
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدوں اور تائیوان کے معاملے پر شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔
ستمبر میں چین کے تائیوان کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے بعد امریکہ نے تائیوان کو دفاعی سازو سامان فروخت کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔
امریکی وزارت خارجہ نے جمعے کو تائیوان کو ممکنہ طور پر 1.1 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے جبکہ چین نے اس امریکی اعلان کے بعد جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان ہتھیاروں میں 60 بحری جہاز شکن میزائل اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے 100 میزائل شامل تھے۔