پاکستان تحریک انصاف نے جب 2018 میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت کی پنجاب حکومت نے سرکاری زمینوں کے قبضے واگزار کرانے کی مہم چلائی اور حکومتی دعوؤں کے مطابق اربوں روپے کی سرکاری جائیدادیں قبضہ گروپوں سے چھڑوا لی تھیں۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ملک کے مختلف شہروں میں قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائیوں کے احکامات جاری کیے اور قبضے واگزار کرائے تھے۔
لیکن اس سب کے بعد حمزہ شہباز اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چوہدری پرویز الہی کے دور اقتدار میں قبضہ گروپوں کے خلاف موثر آپریشن دیکھنے میں نہیں آئے۔ البتہ شکایات پر کارروائی ضرور عمل میں لائی جا رہی ہے۔
پنجاب کی موجودہ حکومت نے صوبے کے مالی مشکلات کم کرنے کے لیے سرکاری جائیداد فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدن کو اخراجات میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب حکومت پہلے مرحلے میں ذرائع آمدن بڑھانے کی غرض سے 350 جائیدادیں نیلام کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب ریونیو بورڈ نے نیلامی کے لیے زمینوں کی تفصیلات بھی ایوانِ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوا دی ہیں۔
اس حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب پر کئی دہائیوں سے حکومت کرنے والی مسلم لیگ ن صوبے کو 28 سو ارب روپے کا مقروض چھوڑ گئی ہے۔ مالی بحران کے باوجود موجودہ حکومت سرکاری امور چلانے اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اسی لیے ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے سرکاری زمینیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پنجاب میں مجوزہ نیلامی کن شہروں میں ہوگی؟
پنجاب حکومت نے صوبائی ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے سرکاری اراضی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور محکمہ ریونیو پنجاب سے تفصیلات طلب کی ہیں۔
پنجاب بورڈ آف ریونیو نے سرکاری اراضی کی نیلامی کے لیے سمری ایوان وزیر اعلیٰ کو ارسال کر دی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود سمری دستاویزات کے مطابق سرکاری پراپرٹی کو نیلام کر کے ریونیو کی مد میں مختص ہدف حاصل کیے جا سکیں گے۔
سرکاری تخمینہ اور اعداد و شمار کے مطابق جن سرکاری زمینوں کو نیلام کرنے کی سفارش کی گئی ہے ان میں لاہور ڈویژن کی 46 سرکاری پراپرٹیز کو چھ ارب روپے میں فروخت کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ساہیوال ڈویژن میں 79 پراپرٹیز کو 80 کروڑ روپے میں فروخت کیا جائے گا۔ اسی طرح فیصل آباد میں 114 پراپرٹیز کو تین اعشاریہ تین ارب روپے میں فروخت کرنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اسی طرح ڈی جی خان میں 26 سرکاری پراپرٹیز سے پانچ ارب 30 کروڑ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ گوجرانوالہ میں چھ سرکاری پراپرٹیوں کی فروخت سے تین اعشاریہ تین ارب روپے کی آمدن حاصل ہونے کا امکان ہے۔
سرگودھا میں پانچ ارب روپے مالیت کی 14 پراپرٹیز اور ملتان ڈویژن میں دو ارب روپے مالیت کی 16 سے زائد سرکاری پراپرٹیز کو فروخت کیا جائے گا۔
حکومتی طریقہ کار کے مطابق سرکاری پراپرٹیز کو بذریعہ نیلامی فروخت کیا جائے گا۔ یعنی جو سب سے زیادہ قیمت لگائے گا زمینین انہیں دے دی جائیں گی اور حاصل شدہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کر دی جائے گی۔
واگزار زمینوں کی مالیت کے دعوے اور فروخت کی ضرورت
پنجاب میں مسلم لیگ ق کے اتحاد سے بننے والی تحریک انصاف کی حکومت نے قبضہ گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کیے تھے۔
لاہور میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سیاسی گھرانے کھوکھر خاندان کی رہائش گاہ کو بھی قبضہ شدہ جگہ قرار دے کر مسمار کیا گیا تھا، جس پر عدالت میں درخواست جمع کرانے کے بعد عدالتی احکامات پر کارروائی روک دی گئی تھی۔
اسی طرح منشا بم نامی شخص کی جانب سے زیر قبضہ زمینیں سپریم کورٹ کے حکم پر واگزار ہوئیں۔
پنجاب حکومت کے سابق ترجمان فیاض الحسن چوہان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ بزدار حکومت کے تین سالہ دور محکمہ مال پنجاب نے قبضہ مافیا کے خلاف منظم کریک ڈاؤن کرتے ہوئے پنجاب بھر سے 18 لاکھ چار سو نو ایکڑ سے زائد اراضی واگزار کروائی، جس کی کل مالیت چار سو 62 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممبر ریونیو کمیٹی پنجاب عمر تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب 2018 میں تحریک انصاف کو حکومت ملی تو پنجاب 1800 ارب کا مقروض تھا۔
’مالی بحران تھا، معمول کے اخرجات کرنا بھی مشکل تھے مگر پھر بھی حکومت نے حالات بہتر کیے۔‘
عمر تنویر کہتے ہیں کہ ’پہلے مرحلے میں حکومت نے دہائیوں سے قبضہ گروپوں کے زیر قبضہ سرکاری زمینیں واگزار کروائیں، حالانکہ کافی سیاسی دباؤ بھی تھا مگر اربوں روپے کی قیمتی زمینیں چھڑائی گئیں۔‘
’دوسری بات یہ ہے کہ صوبے کے مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے نئے منصوبے لگانے اور ذرائع آمدن بڑھانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا اسی فرض کے مطابق موجودہ حکومت سرکاری زمینیں فروخت کر کے شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے اور فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ محکمہ ریونیو کو جن زمینیوں کے بلا وجہ پڑے رہنے یا ناقابل استعمال ہونے کا یقین ہوتا ہے تو انہیں فروخت کر کے کسی اور منصوبے میں پیسہ لگانے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔
’مثال کے طور پر اسلام آباد میں سی ڈی اے نے سرکاری زمینیں کمرشل ریٹس پر فروخت کر کے دوسرے منصوبے شروع کیے اور وہی پیسہ وہاں کام آیا۔ لہذا امور حکومت چلانے اور کمرشل ضروریات کی بنیادوں پر بھی سرکاری پراپرٹیز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔‘
عمر تنویز کے مطابق حکومتی امور میں سرکاری پراپرٹیز کی فروخت سے متبادل منافع بخش منصوبوں میں انویسٹمنٹ بھی معمول کا حصہ ہوتی ہے۔