وفاقی حکومت نے 15 نومبر کو تیل کی دیگر مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے ہائی آکٹین پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر لیوی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق لگژری آئٹم ہونے کے باعث ہائی آکٹین پر پیٹرولیم لیوی 30 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے پیٹرول کی اس قسم کی قیمت تقریباً 290 روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔
وفاقی پیٹرولیم ڈویژن کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق دوسری پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں 30 نومبر تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ ہائی آکٹین کی قیمتوں کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا۔
ہائی آکٹین کیا ہے اور یہ پیٹرولیم کی باقی مصنوعات سے کیسے مختلف ہے، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہائی آکٹین پیٹرول کس قسم کی گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور آیا یہ نارمل پیٹرول سے مختلف ہے یا نہیں۔
پشاور کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں تقریباً 17 سال سے کیمسٹری پڑھانے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علاؤ الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا میں فاسل فیول (زمین میں دبا ہوا ایندھن) سے پیٹرول، کوئلہ اور قدرتی گیس حاصل کر کے انہیں توانائی کے ذرائع کے طور استعمال کیا جاتا ہے اور اسی ایندھن سے ڈیزل، مٹی کا تیل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات حاصل کی جاتی ہیں، جن میں سے پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
پیٹرول میں موجود گندھک (سلفر) کی وجہ سے گاڑی کا انجن ایک مخصوص آواز (ناکنگ) پیدا کرتا ہے، جو انوائرمینٹل اینڈ انرجی سٹڈی انسٹی ٹیوٹ کے ایک مقالے کے مطابق پیٹرول کے قبل از وقت جلنے کے باعث پیدا ہوتی ہے اور جس کے باعث انجن کمزور اور پیٹرول زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر علاؤ الدین نے بتایا: ’ناکنگ ختم کرنے کی غرض سے پیٹرول میں سیسے پر مشتمل مرکب ٹیٹرا ایتھائل لیڈ (Tetrathyllead) نامی اینٹی ناکنگ ایجنٹ ڈالا جاتا تھا۔‘
تاہم اس کیمیاوی مرکب میں سیسے کی موجودگی کے باعث اس کے انسانی جسم پر برے اثرات کا انکشاف ہوا اور ماہرین نے متبادل چیزوں پر کام شروع کر دیا۔
بقول ڈاکٹر علاؤ الدین: ’ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کے جلنے سے سیسہ پیدا ہوتا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور انسانی نظام اعصاب پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
سیسے کے مضر اثرات کی کہانی
سیسے (Lead) کے انسانی صحت پر مضر اثرات کے ثبوت میں ڈاکٹر علاؤ الدین نے ایک امریکی ریاست کی کہانی سنائی، جہاں کے رہائشی تندرست، ہشاش بشاش اور ایک دوسرے سے پیار کرنے والے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصے بعد اس ریاست میں عدم برداشت ختم ہوتی چلی گئی اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگے۔
بقول ڈاکٹر علاؤ الدین: ’ماہرین نے اس مسئلے کی وجہ اور حل جاننے کی غرض سے تحقیق شروع کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اینٹی ناکنگ ایجنٹ، جس سے سیسہ پیدا ہوتا ہے، کے زیادہ اخراج کے باعث انسانوں کے اعصابی نظام پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہاں کے لوگوں کے خون اور پیشاب میں سیسہ زیادہ مقدار میں پایا گیا اور جب وہاں کی حکومت نے گاڑیوں میں سیسے والے اینٹی ناکنگ ایجنٹ کے استعمال پر پابندی عائد کی تو اس مسئلے میں کمی واقع ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیسے کے انسانی صحت پر برے اثرات کے پیش نظر ماہرین نے پیٹرولیم مصنوعات میں اس عنصر کے بجائے دوسرے اینٹی ناکنگ ایجنٹ کے استعمال پر کام شروع کیا اور کچھ عرصے بعد آکٹین بطور متبادل دریافت کیا گیا جبکہ 1996 میں پیٹرولیم مصنوعات میں سیسے کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ڈاکٹر علاؤ الدین کے مطابق آکٹین میں انجن کی آواز بالکل ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے، تاہم اس کی قیمت بہت زیادہ ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماہرین نے آکٹین کے ساتھ ہیفٹین نامی دھات ملانے کا مشورہ دیا اور دونوں کے مرکب کو آکٹین نمبر کا نام دیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آکٹین 20 پیٹرول سے مراد 80 فیصد ہیفٹین اور 20 فیصد آکٹین ہے۔
ڈاکٹر علاؤ الدین کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والا ہائی آکٹین دراصل آکٹین 20 پیٹرول ہی ہے، تاہم اس میں آکٹین کی مقدار نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔
ہائی آکٹین کیوں بہتر ہے؟
ماہرین لگژری یا نئی گاڑیوں میں ہائی آکٹین پیٹرول کے استعمال پر زور دیتے ہیں، جس سے انجن کی آواز کم ہونے کے علاوہ اس کا انرجی لیول بھی بڑھ جاتا ہے۔
قمر الدین عابد مکینیکل انجینیئر ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اینڈ منیجمنٹ سائنسز میں بطور لیکچرر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک لیٹر عام پیٹرول کی پاور ہائی آکٹین کی طاقت سے کم ہے اور جب پاور زیادہ ہو تو گاڑی کی فیول ایوریج بھی بہتر ہو جاتی ہے، یعنی گاڑی کی پک یا ریس بہتر اور انجن کی لائف زیادہ ہو جاتی ہے۔