پشاور کے نواح میں واقع ’سپِین جُمات‘ (سفید مسجد) کی ’مخدوش حالت‘ کے باعث ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عبادت گاہ کی تعمیر نو اور اس میں کار پارک اور پلازہ بنانے پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
سپین جُمات کی کمیٹی نے مسجد کے مجوزہ انہدام کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان افغان سرحد تک جانے والی پشاور۔ جمرود روڈ پر یونیورسٹی آف پشاور اور شہر کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے قریب واقع یہ مسجد اپنی بیرونی دیواروں کے سفید رنگ کے باعث سپین جُمات کھلائی جاتی ہے۔
ضلعی انتظامیہ اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے مشترکہ سروے کے نتیجے میں مسجد کی عمارت کو مخدوش قرار دیا گیا ہے۔
گذشتہ روز میڈیا کو جاری کیے گئے ویڈیو بیان میں ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ کا کہنا تھا کہ سپین جُمات کے انہدام اور اس کی جگہ کمرشل پلازہ تعمیر کرنے کی خبروں میں صداقت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپین جُمات جس جگہ واقع ہے وہیں رہے گی، اور اس علاقے میں پارکنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی غرض سے نئی عمارت کی بیسمنٹ میں پارکنگ کی سہولت رکھی جائے گی، جبکہ پہلی منزل میں دکانیں ہوں گی۔
’ہم یقین دلاتے ہیں کہ مسجد کی نئی عمارت میں موجود دکانوں میں کوئی غیر شرعی مصنوعات نہیں رکھی جائیں گی۔‘
سپین جُمات کی عمارت کی مخدوش حالت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’صوبائی کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ اور پی ڈی اے کے مشترکہ سروے نے مسجد کی عمارت کو ناقابل استعمال قرار دیا ہے، جو نمازیوں اور طلبہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔‘
پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ انتظامیہ نے مسجد سے متصل مدرسے کے طلبا کے لیے کرائے پر ایک عمارت حاصل کر لی ہے، تاکہ وہاں ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسجد کی عمارت کی مخدوش حالت کے باعث پہلے مرحلے میں اسے سِیل کیا جا رہا ہے، تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع یا کسی بھی دوسرے نقصان کو ٹالا جا سکے۔
’اس کے بعد مسجد کی عمارت کو نئے طرز پر اور بہتر سہولیات کے ساتھ تعمیر کرنے کے لیے منہدم کیا جائے گا، اور پھر مسجد نمازیوں اور طلبا کے لیے دستیاب ہو گی۔‘
سپین جُمات کی زمین کی ملکیت سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے ڈی سی پشاور نے کہا مذکورہ زمین حکومت نے 1956 میں خریدی تھی، تاہم بعدازاں اسے مسجد کے لیے وقف کر دیا گیا، جو صوبائی محکمہ اوقاف نے نوٹیفائی بھی کیا تھا۔
مسجد کے باہر تجاوزات کے متعلق شفیع اللہ نے بتایا کہ عدالتی احکامات اور عوامی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپین جُمات کے سامنے 40 فٹ چوڑی پٹی کو سڑک میں شامل کیا جائے گا، جبکہ باقی حصے پر ملٹی سٹوری مسجد بنے گی، جس میں نمازیوں کے لیے زیادہ گنجائش ہو گی۔
ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ نے ویڈیو بیان میں پلازے کی تعمیر ذکر نہیں کیا۔
تاہم گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ سپین جُمات کے منصوبے میں عمارت کے نیچلے حصے (بیسمنٹ) میں کار پارکنگ، پہلی منزل پر دکانیں، اور گراونڈ فلور سے اوپر مسجد تعمیر کی شامل ہے۔
مسجد کمیٹی کا موقف
دوسری طرف سپین جُمات کی کمیٹی نے مسجد کی تعمیر نو سے متعلق انتظامیہ کے مجوزہ منصوبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عبادت گاہ کے ایک ایک انچ کو محفوظ بنانے کا عہد کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے سابق رکن صوبائی اسمبلی مولانا امان اللہ حقانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کا منصوبہ غیر شرعی ہے اور اس حوالے سے دارلعلوم حقانیہ نے فتوٰی جاری کیا ہے۔
’اس مسجد کی زمین پشاور کی خلیل قوم نے وقف کی تھی، اور اگر کوئی سمجھتا کہ اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ہمیں اس مسئلے پر دھمکیاں دی ہیں، لیکن ہم اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دیں گے۔‘
مولانا امان اللہ حقانی نے الزام لگایا کہ شہر کی انتظامیہ سپین جُمات کی قیمتی زمین کو بعض برینڈز کے ساتھ مل کر ہتھیانا چاہتی ہے، اور نئی مسجد کے نیچے پلازہ کی دکانیں ملٹی نیشنل بریںڈز کو دی جائیں گی جو سرا سر اسلامی شعار کے خلاف ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ زمین کے مسجد کے لیے وقف ہو جانے کی صورت وہ قطعہ شرعی طور کبھی بھی کسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا امان اللہ حقانی کا کہنا تھا کہ سپین جُمات کا نقشہ 1982 میں پشاور کی میونسپل کارپوریشن نے منظور کیا تھا، اور وہ مسجد کی زمین پر پلازے کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔
(ایڈٹنگ: عبداللہ جان)