’اوہ مسجد میں کامن روم بھی بنایا گیا تھا۔ لگتا ہے کافی ایڈوانس مسجد تھی‘ میں نے جیسے ہی یہ جملہ کہا، قریب کھڑے محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار دولت شاہ نے جواب دیا ’یہ مسجد نہیں بدھ مت کی عبادت گاہ ہوا کرتی تھی، مسجد اور اس عبادت گاہ کی دیوار ایک ہی ہے جو آپ کو سامنے نظر آ رہی ہے۔‘
اس مسجد کا داخلی دروازه چھوٹا اور سٹیل سے بنایا گیا ہے اور اس کو تالہ لگا ہوا تھا جو اس تاریخی جگہ کے نگران نے ہمارے لیے کھول دیا۔
احاطے میں داخل ہوتے ہی بدھ مت کی عبادت گاہ شروع ہوجاتی ہے۔ دائیں جانب سٹوپا، پانی کے لیے بنایا گیا نالہ جہاں پہاڑوں سے آیا پانی ایک تالاب میں سٹور کیا جاتا تھا، جبکہ بائیں جانب رہائشی کمرے اور ایک کامن روم بنایا گیا تھا۔
عبادت گاہ یعنی سٹوپا اور کامن روم کے بالکل بیچ میں مسجد کے اندر داخل ہونے کے لیے تقریباً چار فٹ کا راستہ تھا۔ بدھ مت کی عبادت گاہ اور مسجد کی ایک ہی دیوار تھی جو چوڑے پتھروں سے بنائی گئی تھی۔
یہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے اوڈیگرام میں تقریباً ایک ہزار سال پرانی اور شمالی پاکستان کے ماہرین کے مطابق وہاں کی سب سے پرانی مسجد ہے جو ’محمود غزنوی مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار نے بتایا ’یہ مسجد 1985 میں ایک اطالوی ماہر اثار قدیمہ نے دریافت کی تھی۔ اسی جگہ کے آس پاس عربی زبان میں ایک تختی دریافت ہوئی تھی جس کے بعد اطالوی ماہرین نے کھدائی کر کے یہ مسجد دریافت کی ہے۔‘
سوات کی مرکزی شاہراہ سے تقریباً دو کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ مسجد جنگل نما علاقے میں واقع ہے۔ چاروں طرف گھنے درخت اور سبزہ موجود ہے جبکہ مسجد کی چھت نہ ہونے کی وجہ سے بدھ مت کی عبادت گاہ اور مسجد کسی ویران جگہ کا منظر پیش کر رہے تھے۔
اس مسجد کو دیکھنے اور اندر داخل ہونے کے لیے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔ سیاحوں کے لیے یہ جگہ شام پانچ بجے تک کھلی رہتی ہے۔ ٹکٹ فیس اس کی دو سو روپے فی سیاح ہے۔
یہ مسجد ایک پہاڑی پر واقع ہے، اور اس کو جانے والا راستہ بھی پتھروں سے بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسجد کے قریب اس جگہ کے نگران کے لیے ایک کمرہ بھی بنایا گیا ہے جہاں نگران اور چوکیدار بیٹھتے ہیں۔
محمود غزنوی مسجد کی تاریخ کیا ہے ؟
’محمود غزنوی‘ نامی کتاب میں ستار طاہر لکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مورخ اور تاریخ کے طالب علم اس بات پر متفق ہیں کہ سلطان محمود غزنوی دنیا کے بڑے فاتحین میں سے ایک تھے۔
’تاہم محمود غزنوی کے کردار کو بعض مورخین کی جانب سے متنازع بنانے کی بھی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ محمود نے ’فتوحات‘ صرف اس لیے کی تھیں تاکہ وہ مال و دولت جمع کریں۔ تاہم اس بیانیے سے اختلاف رکھنے والوں کا موقف ہے کہ اگر محمود مال دولت کے لالچی ہوتے تو کسی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھتے تاہم انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
27 سال کی عمر میں غزنی کی سلطنت محمود غزنوی کے ہاتھ میں آئی۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق 17 بار کوشش کے بعد آخری معرکے میں محمود غزنوی سومنات (آج کل انڈیا گجرات کا علاقہ) تک پہنچ گئے۔ انہیں معرکوں میں ایک لڑائی پشاور کے علاقے میں بھی لڑی گئی جو ہندوستان کے حکمران جے پال کے ساتھ ہوئی۔
بریٹانیکا کے مطابق محمود غزنونی 15000گھڑسواروں جبکہ جے پال 30000سپاہیوں اور 300ہاتھیوں سمیت آئے اور پشاور کے مقام پر لڑائی ہوئی جس میں اندازے کے مطابق 15000 لوگ ہلاک ہوئے۔
محمود غزنوی مسجد سوات میں کیسے بنی؟
انسٹی ٹیوٹ آف ساوٴتھ ایشین سٹڈیز کے ایک مقالے کے مطابق ماضی میں سوات بدھ مت مذہب کا مرکز رہا ہے اور سوات میں اسلام کا دور تب شروع ہوا جب یہاں محمود غزنونی آئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق محمود غزنوی نے اسی مسجد کے مقام پر قائم راجا گیرا قلعہ پر حملہ کیا تھا۔
راجا گیرا اس علاقے میں بدھ مت کے آخری حکمران تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے محمود غزنوی نے پیر خوشحال نامی کمانڈر تعینات کیا تھا اور تین دن تک قلعے کو پانی کی ترسیل روک دی تھی۔ بعد میں چڑھائی کر کے قلعے پر قبضہ کیا جس میں کمانڈر پیر خوشحال بھی ہلاک ہو گئے۔
پیر خوشحال کا مزار اسی مقام اوڈیگرام پر واقع ہے جہاں ان سے عقیدت رکھنے والے لوگ آج بھی جاتے ہیں۔
محمود غزنوی مسجد اس قلعے سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ اس مسجد سے متصل بدھ مت کی عبادت گاہ بھی تاریخ دانوں کے مطابق راجہ گیرا نے بنائی تھی اور قلعہ کو فتح کرنے کے بعد محمود غزنوی کے ایک نمائندے نے بدھ مت عبادت گاہ سے بالکل متصل اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔
مسجد کا طرز تعمیر
مسجد تقریبا ایک ہزار سال پرانی ہے اور خیبر پختونخوا محکمہ آثار قدیمہ ومیوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد ہے جو اسلامی آرکیٹیکچر کی زندہ مثال ہے اور جس جگہ پر یہ مسجد موجود ہے، اس کی کھدائی پر کام 1985 سے 1999 میں اٹلی کے ماہر آثار قدیمہ نے شروع کیا تھا۔
خیبر پختونخوا محکمہ آثار قدیمہ و میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسجد کی دریافت تب ممکن ہوئی جب اس کے قریب 1984 میں کتبہ دریافت ہوا اور اس کتبے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مسجد 49-1048 میں تعمیر کی گئی تھی۔
اس مسجد کی چھت موجود نہیں ہے۔ مسجد سے متصل بدھ مت کی عبادت گاہ کا سٹوپا، کمرے، واٹر مل اور عبادت کی جگہ بھی موجود ہے۔ مسجد کی دیواریں تقریباً 30 فٹ اونچجی ہے اور اصلی حالت میں موجود ہے۔
مسجد کے شمال سے جنوب کی جانب پانچ ستون جبکہ مشرق سے مغرب کی جانب آٹھ ستونوں کی بنیادیں موجود ہیں۔
مسجد میں اذان دینے کے لیے بھی باقاعدہ ایک جگہ بنائی گئی ہے جبکہ مسجد کے بیچ آگ لگانے کے لیے جگہ بھی موجود ہے۔