کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی اہلیہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ان کے شوہر کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کروانے کی غرض سے مدد طلب کی ہے۔
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو اس سلسلے میں 17 نومبر کو ایک خط تحریر کیا۔
جویریہ صدیق نے، جو خود بھی ایک صحافی ہیں، صدر مملکت سے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطرعدالتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے میں بھی مدد طلب کی ہے۔
ارشد شریف کو تین اکتوبر کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
کینیا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے کینیا اور دبئی کا دورہ کیا۔
صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں جویریہ صدیق نے کہا کہ قتل کی ابتدائی تحقیقات میں کئی تضادات اور بے ضابطگیاں ہیں، جس کے باعث ان کے خاندان نے حکومت پاکستان کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کیا۔
‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’
انہوں نے خط میں مزید تحریر کیا کہ ان کے شوہر کے کینیا اور پاکستان میں کیے گئے پوسٹ مارٹمز کی رپورٹس کو آئے کافی وقت گزر چکا ہے اور قتل کی حقیقت جاننا اور متعلقہ معلومات حاصل کرنا مرحوم کے خاندان کا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے صدر مملکت سے ارشد شریف کے ’بعد از مرگ میڈیا ٹرائل‘ رکوانے کے سلسلے میں مدد کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’تصاویر کا یوں منظر عام پر آنا یہ سوچنے کے لیے کافی ہے کہ اس بہیمانہ قتل کے محرکات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ارشد شریف کے بیرون ملک جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے مختلف طریقوں سے انہیں ’ڈرانے کی کوشش‘ کی اور ان کے خلاف ’غداری‘ کے مقدمات درج کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جس کی وجہ سے وہ اگست 2022 میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔‘
جویریہ صدیق نے مزید لکھا کہ ارشد کے آجر ٹی وی چینل اے آر وائی پر بھی انہیں (ارشد) کو نوکری سے نکالنے کے لیے دباو ڈالا گیا تھا۔
’اسی تناظر میں میرے شوہر نے اے آر وائی کے چار ہزار سے زیادہ ملازمین کو اپنی روزی روٹی کھونے سے بچانے کے لیے اپنی ملازمت استعفیٰ دینے کا انتخاب کیا۔‘
خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
انہوں نے مزید تحریر کیا کہ ارشد شریف اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر پاکستان سے جلدی میں جانا پڑا، ایسے میں ان کے پاس اپنے سفر کی منصوبہ بندی کا وقت نہیں تھا، اس لیے انہوں نے ایسے ملکوں کا رخ کیا جہاں آمد پر ویزا مل سکتا ہے۔
’اور اسی لیے انہوں نے متحدہ عرب امارات میں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘
(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)