ایک جانب صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنا دی گئی ہے، وہیں اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث کینیا کے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے پولیس افسران کی ایک ٹیم نے ان کی موت کی تحقیقات کے لیے اپنے ہتھیار واپس کردیے ہیں۔
پاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے لیفٹیننٹ کرنل سعد احمد، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عمر شاہد حامد اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر اطہر وحید شامل ہیں۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ٹیم فی الفور کینیا جا کر تحقیقات کرے گی۔
کینیا کے اخبار ’دا سٹار‘ کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کے ضمن میں واقعے میں ملوث کینین پولیس افسران نے اپنے ہتھیار واپس کردیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تحقیقات کرنے والی ٹیم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ آیا اس واقعے میں کینیا پولیس کے ایک افسر کو گولی لگنے کے واقعے میں کوئی دوسرا شوٹر ملوث تھا یا نہیں۔
تحقیقاتی ٹیم ایموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج کے مالکان سے بھی پوچھ گچھ کرے گی، جہاں مقتول ارشد شریف نے اتوار (23 اکتوبر) کو زیادہ تر وقت گزارا تھا۔
ایموڈمپ شوٹنگ رینج ایک اہم جگہ ہے جہاں سکیورٹی اہلکار آ کر اپنی شوٹنگ صلاحیت پر کام کرتے ہیں۔
ایموڈمپ کے منشور کے مطابق: ’ہم دفاعی اور سکیورٹی آلات میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایموڈمپ کا قیام 2015 میں عمل میں آیا جب ہم خیال افراد نے بہترین برانڈز، اثاثوں اور افراد کو رسک منیجمنٹ کے شعبے میں یکجا کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ارشد شریف وہاں کیا کر رہے تھے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان کا ڈرائیور خرم احمد، شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کا بھائی تھا۔
رپورٹ کے مطابق خرم نے فائرنگ کے بعد اپنے بھائی کو فون کرکے انہیں واقعے سے آگاہ کیا اور اسے ابتدائی طبی امداد کے لیے اپنے ساتھ ٹنگا شاپنگ سینٹر جانے کی ہدایت کی۔
پولیس نے کہا ہے کہ اسے بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ارشد شریف پر فائرنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں میں سے ایک کیلون موٹوکو، گولی لگنے سے زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جنہیں بائیں ہتھیلی پر زخم آیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد ان کے ساتھیوں نے اس گاڑی پر گولی چلائی، جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
پولیس افسران، جو مقامی جی ایس یو کیمپ میں ٹرینر ہیں، نے بتایا کہ وہ واقعے کے وقت اس علاقے میں تعینات تھے اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ گولی ’دوستانہ فائرنگ‘ ہو۔
اس کے نتیجے میں ٹویوٹا وی ایکس کار پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ارشد شریف کی موت واقع ہو گئی۔
انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ایک لاپتہ سفید مرسڈیز بینز کار کی اطلاع پر چار پولیس اہلکاروں کی ٹیم اپنے جی ایس یو کے تربیتی کیمپ سے اس مقام پر گئی جہاں فائرنگ ہوئی تھی، تاہم مذکورہ کار کو کیسریان کے علاقے میں دیکھا گیا۔
اس کے بعد انہوں نے پتھر رکھ کر سڑک کو بند کیا، اپنی ٹویوٹا لینڈکروزر کو چند میٹر کے فاصلے پر لائٹس آن کرکے کھڑا کیا اور چوری کی گئی کار کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔
افسر نے بتایا کہ ایک مخبر نے انہیں بتایا کہ لیریمیٹ سے کاموکورو کی سمت میں ایک کار ان کی جانب آ رہی ہے۔
اور چند منٹ بعد وہ گاڑی وہاں پہنچی، جس میں ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور موجود تھے، لیکن پولیس کی گاڑی کی لائٹس آن دیکھ کر بھی ان کی گاڑی ناکے میں سے گزر گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کار کو روکنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں ارشد شریف کی ہلاکت ہوئی۔
دوسری جانب جب ڈرائیور خرم کو محسوس ہوا کہ ارشد شریف خون زیادہ بہہ جانے سے چل بسے ہیں تو انہوں نے چند کلومیٹر آگے جا کر گاڑی اپنے بھائی کے گھر کے دروازے پر روک دی۔
اس کے بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور لاش کو مردہ خانے منتقل کرنے سے پہلے ان سے پوچھ گچھ کی۔
دا سٹار اخبار کے مطابق پولیس نے گاڑی کی تلاشی لی تو انہیں اس میں سے کوئی ہتھیار یا مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی۔
پولیس ہیڈ کوارٹر نے یہ کیس ’انڈپینڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی‘ (پولیس کی زیادتیوں پر نظر رکھنے والی اتھارٹی) کو سونپ دیا ہے۔ اتھارٹی کی سربراہ این مکوڑی کا کہنا ہے کہ اتھارٹی معاملے کے جانچ کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
کینیا کی پولیس سے جڑے تنازعات
کینیا کی پولیس فورس پر ماضی میں بھی ماورائے عدالت قتل کے کئی الزامات لگتے رہے ہیں۔
ارشد شریف کے قتل سے کچھ دن قبل ہی کینیا پولیس کے سپیشل سروسز یونٹ، جسے ’کلر سکواڈ‘ بھی کہا جا تا ہے، کو کینیا کے صدر نے تحلیل کیا تھا۔
تاہم ارشد شریف کے قتل میں ملوث اہلکاروں کا تعلق جنرل سروسز یونٹ سے ہے نہ کہ تحلیل شدہ سپیشل سروسز یونٹ سے۔
سپیشل سروسز یونٹ:
یہ 1999 کی بات ہے جب مشرقی افریقہ کے ملک کینیا میں جرائم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے کینیا کی اس وقت کی حکومت کوششیں تو کر رہی تھی لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل رہا تھا جبکہ پولیس بھی جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آرہی تھی۔
کینیا کی اس وقت کی حکومت نے جرائم کی شرح میں کمی کے لیے پولیس کی سپیشل فورس بنانے کا فیصلہ کیا اور آج سے 22 سال قبل کینیا کی پولیس میں ڈائریکٹریٹ آف کریمینل انوسٹی گیشن (ڈی سی آئی) کے ماتحت ’سپیشل کرائم پریوینشن یونٹ‘ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا کام جرائم کی روک تھام کے لیے حکمت عملی بنانا اور اس پر عمل کرنا تھا۔
ڈی سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق یونٹ بننے کے تقریباً 20 سال بعد 2019 میں اس یونٹ کا نام تبدیل کر کے ’سپیشل سروس یونٹ‘ رکھ دیا گیا۔
ویب سائٹ کے مطابق: ’یہ یونٹ ان جگہوں پر زیادہ فعال ہوتا تھا، جہاں جرائم کی شرح دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھی۔‘
کینیا کے سپیشل سروس یونٹ کو ’کلر سکواڈ‘ کیوں کہا گیا؟
سپیشل سروس یونٹ کو بظاہر کینیا میں جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا، تاہم بعد میں اسی یونٹ پر لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات عائد کیے جانے لگے۔
ان الزامات کی گونج اقوام متحدہ تک بھی پہنچی، جہاں 2009 میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کینیا کا سپیشل سروس یونٹ مختلف لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کر رہا ہے۔
اس رپورٹ میں مختلف واقعات کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2019 میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی کینیا کے حوالے سے جاری کی گئی ایک سالانہ رپورٹ میں سپیشل سروس یونٹ کی جانب سے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا ذکر کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ 2018 میں کینیا کی پولیس نے کم از کم 21 افراد پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کیا گیا جبکہ کینیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم ماتار کے مطابق صرف 2017 میں پولیس کی جانب سے 57 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
کینیا کی حکومت نے متعدد بار سپیشل سروس یونٹ کی جانب سے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی تردید کی ہے، تاہم اسی سپیشل سروس یونٹ پر ’الجزیرہ‘ کی بنائی گئی ایک ڈاکومینٹری میں دکھا گیا ہے کہ سپیشل سروس یونٹ کے کچھ اہلکاروں (جن کے چہرے چھپائے گئے تھے) نے واضح طور پر یہ قبول کیا کہ وہ لوگوں کو ’شوٹ اینڈ کِل‘ (Shoot and kill) کرتے ہیں۔
اسی ڈاکومینٹری میں یہ بھی بتایا گیا کہ جرائم میں ملوث لوگوں کے حوالے سے تفصیلات برطانیہ اور اسرائیل سے دی جاتی ہیں اور اس کے بعد ان لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔
اس ڈاکومینٹری پر اس وقت کی کینیا کی حکومت نے نوٹس لے کر الجزیرہ کے خلاف عدالت جانے کا اعلان بھی کیا تھا۔
سپیشل سروس یونٹ کو ختم کرنے کا اعلان
ایک ہفتہ قبل پولیس کے سپیشل سروس یونٹ یا ’کلر سکواڈ‘ کو کینیا کے موجودہ صدر ویلیم روٹو نے اس وقت ختم کردیا تھا، جب اس پر انڈیا کے دو شہریوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
کینیا میں موجودہ صدر کی انتخابی مہم میں شامل انڈیا کے دو شہریوں کو رواں سال جولائی میں پولیس نے مبینہ طور پر اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا لیکن مقامی میڈیا کے مطابق دونوں کو مبینہ طور پر قتل کردیا گیا ہے۔
انڈین شہریوں کے لاپتہ ہونے پر انڈیا کے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ انڈیا کی حکومت اپنے دو شہریوں کے لاپتہ ہونے پر فکر مند ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہمیں کہا گیا کہ کینیا پولیس انتظامیہ اس کیس میں تفتیش کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں ختم ہونے والے سپیشل سروس یونٹ کے کچھ اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
انڈین شہریوں کے قتل کا الزام کینیا پولیس کے سپیشل سروس یونٹ پر لگایا گیا، جس کے بعد صدر نے اس یونٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
کینیا کے معتبر اخبار ’دی سٹار‘ کی 24 اکتوبر کے رپورٹ کے مطابق ’کلر سکواڈ‘ کے کچھ اہلکاروں، جن پر ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات ہیں، کے ٹرائل آج سے شروع ہوں گے۔