ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ برطانیہ کے تیسرے امیر ترین آدمی نے یہ اعتراف کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ سال پہلے ایک دن اچانک میری زندگی بدل گئی۔ یہ ایک دم ہوا تھا۔ ایک دن میں صبح اٹھا تو اپنے بستر سے نہیں نکل سکتا تھا۔ میں نے سوچا کوئی بات نہیں میں کل ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن اگلا دن اس سے زیادہ برا تھا۔ میں دنیا کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا اور کسی قسم کا سماجی تعلق نہیں بنا پا رہا تھا۔ اُس وقت میں نے سوچا کہ میری تمام دولت کسی کام کی نہیں۔ میں کمزور محسوس کر رہا تھا لیکن خود کشی کا نہیں سوچ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ بہت غلط ہو رہا ہے اور اسے جلد سے جلد ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اور اس طرح ڈیوک آف ویسٹ منسٹر نے تین ماہ کی تعطیلات لے کر اپنی زندگی کو اس نفسیاتی حملے سے پہلے کے جیسے بحال کرنے کی کوشش کی۔ کیا باقی مردوں کو بھی ایسے علاج کا موقع مل سکتا ہے، کیا وہ اتنی دولت رکھتے ہیں؟
عمومی طور پر مرد ایسا حساس اعتراف کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ڈپریشن کے بارے میں ادب میں کافی دقیانوسی سوچ پائی جاتی ہے۔ جیسے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین میں خود کو پسند نہ کرنے کی علامات کافی واضح ہوتی ہیں۔ ان میں کم عزت نفس، منفی سوچ اور مایوسی خود کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات کی وجہ بن سکتے ہیں ویسے ہی مردوں میں بھی یہ رجحان ان ہی جذباتی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ڈیوک کے علاوہ کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔
سرکاری طور پر مانا جاتا ہے کہ چھ میں سے ایک بالغ فرد ذہنی دباؤ کی صورتحال کا سامنا کرتا ہے لیکن خواتین میں اس کی شناخت ہونے کی شرح مردوں سے دگنی ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کونسل فار سائیکوتھراپی کی ایک رپورٹ جو لندن سکول آف اکنامکس کی مدد سے شائع کی گئی، کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کلینکل ایکسیلینس (نائیس) جیسے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں معلومات اکٹھی کرنے کے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ اس مسئلے سے متاثرہ مردوں کی مکمل تعداد رپورٹ نہیں کر پاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت نائیس کی جانب سے ایک سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے جو ’کوالٹی آف لائف ایئرز‘ (کیو اے ایل وائے) کہلاتا ہے۔ یہ مریضوں سے ملنے والی معلومات پر اندازے لگاتا ہے کہ یہ کون سی بیماری ہو سکتی ہے۔ ناقدین اسے پسماندہ اور غلط بیانی سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ یہ ایسے لطیفوں کو جنم دیتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی بیماری موت سے بھی بری ہے تو نائیس کے سسٹم کے مطابق اسے مار ڈالنا زیادہ بہتر ہوگا۔
زیادہ جدید طریقہ کار جیسے ’سبجیکٹو ویل بینگ‘ مریضوں کی بیماری کے دوران ان کی صورتحال کو جانچتا ہے۔ یہ متبادل طریقہ کار نہ صرف یہ پتہ لگاتا ہے کہ ڈپریشن اصل میں دس گنا زیادہ ہے، اس کے ساتھ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ مردوں کے ڈپریشن سے متاثر ہونے کا ڈیٹا شاید غائب ہی ہو جائے۔
آج این ایچ ایس آپ کو بتائے گا کہ مردوں میں ڈپریشن سے متاثر ہونے کی شرح تین سے چار فیصد ہے جبکہ خواتین میں یہ شرح سات سے آٹھ فیصد ہے۔ لیکن اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرد خواتین کی نسبت کم تعداد میں علاج کی طرف جاتے ہیں۔ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ علاج کی جانب جاتی ہیں، یہ بلوغت سے 75 سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر بھی مردوں میں ڈپریشن کی شناخت کم ہی کر پاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مردوں کی ’انا‘ بھی ہو سکتی ہے جس کے تحت وہ خود کو بہت بہادر دکھانا چاہتے ہیں۔ قیلے سسٹم میں وہ اس مسئلے کو دبا کر اس کی علامات کو چھپاتے ہیں جو ان کے اعدادوشمار کے معاملے میں صحت کے اخراجات کو بھی کم ظاہر کرتا ہے۔
لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یو کے سی پی کی رپورٹ کے مطابق ڈپریشن نہ صرف دنیا کی ایک بدترین بیماری ہے بلکہ یہ آپ کو ایک ایسی جیل میں بند کردیتی ہے جس سے نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں ہے (یہ مثال ڈورتھی رووئے سے مستعار لی گئی ہے)۔ یہ قریب ترین دوسری خطرناک بیماری سے چھ گنا زیادہ مہنگی بھی ہے۔ مختصر یہ کہ ڈپریشن آپ کے معیار زندگی کو سالانہ 44 ہزار دو سے 37 برطانوی پاؤنڈز میں پڑسکتی ہے، بہ نسبت گردے کی بیماری کے جس پر سالانہ 5 ہزار پانچ سو 55 پاؤنڈز خرچ ہو سکتے ہیں۔
ایک عمومی تاثر کے طور پر مرد خواتین کے مقابلے میں اپنے ڈپریشن کا علاج بہت مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہ مانا جاتا ہے کہ منشیات اور شراب کی زیادہ مقدار مردوں میں ڈپریشن کا کلینکل ثبوت ہے۔ وہ مرد جو شراب نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں وہ خواتین کے مقابلے میں اس سے دگنا متاثر ہوتے ہیں۔ اگر ہم دماغی دباؤ، شراب نوشی، منشیات کے استعمال، کام کرنے کی زیادتی یا سڑکوں پر جارحانہ رویوں کی بات کریں تو ڈپریشن کے معاملے میں ملکی سطح پر پائے جانے والے مردوں کے اعدادوشمار اس سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ڈپریشن کی کچھ اقسام خاموشی کے برعکس ہنگامہ خیز اور پُرشور ہوسکتی ہیں۔
کیا آپ ایسا نہیں سمجھتے؟ پھر ایسا کیوں ہے کہ خواتین کے مقابلے میں ڈپریشن کی شناخت ہونے والے مردوں کی تعداد نصف ہے لیکن خود کشی کرنے میں مردوں کی شرح خواتین سے تین گنا زیادہ ہے۔
© The Independent