لاہور کے ایک شاعر محمد حماد نے اجوکا تھیئٹر کے اداکار فہد جاوید ہاشمی پر ڈسٹرکٹ سیشن جج لاہور کی عدالت میں تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 500 کے تحت ازالہ حیثیت عرفی (Defamation) کی ذاتی شکایت دائر کر دی ہے۔
اپنی شکایت میں حماد نے الزام لگایا ہے انہیں کسی نے بتایا کہ فہد ہاشمی نے 23 جنوری 2022 کو پرانی انارکلی کی فوڈ سٹریٹ میں بیٹھ کر کچھ لوگوں کے سامنے ان پر الزام لگایا کہ مدعی ماضی میں ان کے پاس کسی سفارش کے ذریعے آئے تھے تاکہ وہ انہیں شاعری، لکھنا اور شو کی میزبانی کرنا سکھا دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ فہد ہاشمی نے یہ بات بار بار لوگوں کے سامنے دہرائی جبکہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ مدعی کبھی کسی سلسلے میں فہد کے پاس نہیں گئے۔
محمد حماد نے یہ بھی کہا ہے کہ فہد ہاشمی نے ان پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ انہیں اپنی شاعری بار بار تصحیح کے لیے بھیجتے رہے جو کہ شعرا کے حلقے میں بہت تضحیک آمیز سمجھا جاتا ہے جبکہ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں اور فہد ہاشمی نے ان پر ایسے الزامات لگا کر ان کی شہرت کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
شکایت کنندہ محمد حماد نے اپنی شکایت میں یہ بھی لکھا کہ وہ لاہور کے حلقہ ارباب ذوق کے متحرک رکن بھی ہیں اس کے علاوہ وہ مختلف اخباروں میں کالم لکھتے ہیں اور ریڈٰیو جوکی بھی ہیں جبکہ بطور صحافی ایک روزنامہ میں کام بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے فہد سے وٹس ایپ کے ذریعے معاملہ جاننے کی کوشش کی تو فہد نے ان پر چیخنا چلانا شروع کر دیا اور یہ بھی کہا کہ شاعر اس معاشرے کے ذلت آمیز لوگ ہیں اور میرے سامنے شعرا اور مصنفین کی کوئی اوقات نہیں۔
حماد نے اپنی شکایت میں کہا کہ اس سب سے انہیں اس حد تک ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں اور وہ اپنے دوستوں یا ادبی محفل میں جاتے ہیں انہیں اپنی صفائی پیش کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے عدالت تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 500 کے تحت فہد ہاشمی کو سزا دے۔
ہم نے محمد حماد سے رابطہ کیا تاکہ ان سے مزید تفصیلات جان سکیں لیکن انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مقدمے کے بارے میں کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد حماد نے عدالت میں یہ شکایت فروری 2022 میں جمع کروائی تھی۔
دوسری جانب فہد ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں عدالت میں ان کے خلاف دائر شکایت کا علم اگست میں ہوا جب ان کے خلاف گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور انہیں تھانے سے فون آیا۔ فہد کے مطابق اس سے قبل انہیں کوئی عدالتی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ بعد میں انہیں علم ہوا کہ عدالتی نوٹس کسی غلط پتے پر ارسال ہو رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پہلی بار 20 ستمبر کو عدالتی حکم کے مطابق اس کیس کی سماعت کے لیے عدالت گئے جس کے بعد کچھ سینیئرز اور حلقہ ارباب ذوق کے اراکین نے مشورہ دیا کہ بیٹھ کر آپس میں بات چیت کر کے مسئلہ حل کر لینا چاہیے۔ لیکن اس دوران کیس کی دوسری سماعت آ گئی جس پر میں عدالت نہیں جا سکا اور سماعت کے لیے اگلی تاریخ ملی جو کہ 16 نومبر تھی۔
’اس دن مجھ پر فرد جرم عائد ہوئی اور جج صاحب نے مجھے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا کہا اور مقدمے کی کارروائی کے لیے 18 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔ 18 کو جب میں عدالت میں پیش ہوا اور استدعا کی کہ مجھے مقدمے کا ریکارڈ فراہم کیا جائے تاکہ میں وکیل کر سکوں۔ محترم جج صاحب نے مجھے مقدمے کی فائل دفتر سے حاصل کرنے کے لیے کہا اور جب میں عدالت کے دفتر سے باہر نکلا تو مجھ پر چھ سات افراد جن میں وکلا بھی شامل تھے، مجھ پر حملہ کر دیا اور مجھے بہت مارا یہاں تک کہ میرا چہرہ زخمی کر دیا۔‘
فہد کہتے ہیں کہ ’حماد نے شکایت کی ہے کہ میں نے ان پر تنقید کی ہے جو میں نے نہیں کی۔ پھر بھی میں کہتا ہوں کہ ہاں جی اگر میں نے کی ہے تو تنقید کوئی جرم تو نہیں ہے۔ میں ایک پڑھا لکھا اور اچھے اداروں میں کام کرنے والا شخص ہوں اب میں مین سٹریم میڈیا کے لیے بھی اداکاری کر رہا ہوں۔ اب انہوں نے الزام لگایا ہے تو میں اس کیس کی پوری پیروی کروں گا لیکن جو کچھ عدالت میں ہوا میرے ساتھ اور بعد میں مجھے دھمکایا بھی گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس دن کا میڈکو لیگل ریکارڈ بھی موجود ہے اور انہوں نے اس تشدد کی رپورٹ بھی متعلقہ تھانے میں جمع کروائی تھی جس کی کاپی بھی ان کے پاس موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’پیشی کے دوران مدعی یعنی حماد نے مجھ سے کہا کہ ان کے کیس پر پیسے لگے ہیں تو میں وہ پیسے اور ایک معافی نامہ لکھ کر دوں جس پر میں نے ان سے کہا کہ کہا میں نے کبھی جان بوجھ کر کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کی لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ غیر ارادی طور پر مجھ سے کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو میں معذرت کرتا ہوں اور میں نے انہیں صلح کا بھی کہا۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔‘
دوسری مدعی محمد حماد نے جہاں انڈپینڈنٹ اردو سے کیس کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا وہیں انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے یا ان کے کسی بھی ساتھی نے عدالت کے باہر فہد پر تشدد کیا۔ حماد نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ فہد نے ان سے صلح کی کوشش کی ہے۔
اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو نے حلقہ ارباب ذوق کی سیکریٹری فرح رضوی سے رابطہ کیا۔ فرح نے بتایا کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق محمد حماد نامی کوئی شخص حلقہ ارباب ذوق لاہور کا رکن نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حلقہ ارباب ذوق کی مجلس عاملہ سے مشاورت کے بعد، 20 نومبر کو حلقہ کے ہفتہ وار اجلاس میں ایک مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی جسے حاضر اراکین نے متفقہ طور پر منظور کیا جس کی توثیق جلسے کے صدر عبدالوحید نے کی۔
سیکریٹری حلقہ فرح رضوی نے مزید کہا کہ حلقہ ارباب ذوق ہر طرح کے تشدد کا مخالف ہے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کے متعدد بار منتخب ہونے والے سابق سیکریٹری عامر فراز نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حلقہ ارباب ذوق کے انتخابات کے حوالے سے تو مقدمہ بازی ضرور ہوئی ہے، لیکن اس نوعیت کا مقدمہ ان کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا۔
مقدمے کی فائل کا جائزہ لینے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ معزز عدالت نے اپنے حکم مورخہ 16 نومبر 2022 کے ذریعے بظاہر معقول وجوہات کی بنا پر مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا اور ملزم فہد کے خلاف فرد جرم عائد کی۔
تاہم 30 نومبر 2022 کو ہونے والی سماعت میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے کے باعث عدالت نے اس کیس کی سماعت 11 جنوری 2023 کو کرنے کا فیصلہ کیا۔