پاکستان نے کرکٹ میں صرف فاسٹ بولر ہی نہیں بلکہ گذشتہ برسوں میں نامور سپنر بھی تیار کیے ہیں۔ گگلی ماسٹر عبدالقادر، دوسرا کے موجد ثقلین مشتاق، سپن جادوگر مشتاق احمد ہوں یا سعید اجمل یہ فہرست طویل اور نمایاں ہے۔
اگر عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، سرفراز نواز اور عاقب جاوید جیسے کھلاڑیوں نے دنیا کو ریورس سوئنگ کا فن دیا تو سپنرز ثقلین مشتاق اور سعید اجمل اور ’تیسرا‘ کے اسرار و رموز سامنے لائے۔ ثقلین مشتاق کی وجہ سے لفظ ’دوسرا‘ کرکٹ ڈکشنری کا حصہ بن گیا۔
یکم دسمبر سے انگلینڈ کے ساتھ شروع ہونے والی ٹیست سیریز کے پہلے میچ کے سکواڈ میں شامل ابرار احمد بھی سپینرز کی طویل ہوتی ہوئی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے جنہیں ’مسٹری سپنر‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس 24 سالہ کھلاڑی نے قائد اعظم ٹرافی میں 43 وکٹیں حاصل کیں، اور اس شاندار کارکردگی کے باعث انہیں انگلینڈ کے خلاف بین الاقوامی ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔
سندھ کی جانب سے کھیلنے والے ابرار نے 21.95 کی اوسط سے 43 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ انہوں نے چھ میچوں میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں اور اپنی ٹیم کو قائد اعظم ٹرافی کے فائنل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے بھی ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’قائداعظم ٹرافی کے اس سیزن میں پانچ پانچ وکٹوں سمیت43 وکٹیں۔ ابرار احمد کو پہلی بار ٹیسٹ کال اپ کے ساتھ فرسٹ کلاس کی بہترین کارکردگی کا صلہ ملا ہے۔‘
ویب سائٹ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ابرار احمد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ابرار 2020-21 میں فرسٹ کلاس سیزن میں ڈیبیو کرنے کے بعد سے ہی ریڈار پر ہیں۔
’وہ عمدہ فارم میں ہیں، لہٰذا انہیں بابراعظم کو دینا سمجھ آتا ہے تاکہ وہ آنے والی سیریز میں اس نوجوان کے اعتماد اور صلاحیت کو استعمال کر سکیں۔‘
ابرار احمد لیگ بریک بولر ہیں، لیکن وہ گگلی بھی پھینک سکتے ہیں۔ اگر وہ کوئی بھی ٹیسٹ کھیلتے ہیں تو پاکستان کے لیے کھیلنے والے اپنی نوعیت کے پہلے کھلاڑی ہوں گے۔
کرک انفو کے مطابق وہ پشتو بولتے ہیں لیکن پیدا ہوئے اور پلے بڑھے کراچی میں ہیں، ان کا خاندان شاہراہ قراقرم پر ایبٹ آباد کے قریب مانسہرہ کے مضافات میں واقع چھوٹے سے گاؤں شنکیاری سے کراچی منتقل ہوا تھا اور وہ لائنز ایریا میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے۔
انہوں نے گیند کو سپن کرنے کی اپنی صلاحیت سے مقامی کرکٹ کوچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ ان کی بولنگ راشد لطیف اکیڈمی بنی اور انہوں نے شہر کے ایک مشہور کوچنگ نام محمد مسرور کی مدد سے اسے بہتر بنایا۔
ابرار احمد کے پاس ’مسٹری‘ کیا ہے؟
کرکٹ کے مشہور ادارے وزڈن کی ویب سائٹ کے مطابق ابرار احمد لیگ سپنر ہیں اور گگلی اور فلپر بھی کروا سکتے ہیں، جو عام لیگ سپنروں کے خاص ہتھیار ہیں۔
لیکن ابرار احمد کی انفرادیت یا ’پراسراریت‘ یہ ہے کہ وہ لیگ سپن کے لیے عبدالقادر، مشتاق احمد، یاسر شاہ، شین وارن یا موجودہ کھلاڑیوں میں راشد خان، ایڈم زیمپا یا عادل رشید کی طرح کلائی کا استعمال نہیں کرتے بلکہ آف سپنر کی طرح سے گیند پھینکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی گیند کو ’پڑھنا‘ مشکل ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیند پڑھنا سے مراد یہ ہے کہ اچھے بلے باز بولر کی کلائی کو غور سے دیکھتے ہیں اور گیند پھینکتے ہی انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ گیند کس طرف کو گھومے گی۔ لیکن اگر کلائی کو نہ پڑھا جا سکے تو بلےباز مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
کراچی کنگز کی جانب سے2017 کا پاکستان سپر لیگ کھیلتے ہوئے وہ پہلی بار قوم کی نظروں میں آئے۔ اپنے پہلے دو میچوں میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن انہوں نے انگلینڈ کے سابق کپتان این مورگن کو یاد گار16 گیندیں کرائیں، جن میں سے سات پر کوئی رنز نہیں بنا اور ایک چھکے کے ساتھ کل17 رنز بنے۔
اس میچ میں این مورگن نے57 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 80 رنز بنائے تھے۔ اس وقت کے کوچ مکی آرتھر اور کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے بھی ان کی باولنگ سے متاثر ہوئے تھے۔
ان کے کوچ مسرور کے مطابق ابرار کو ’ریڈ بال کرکٹ میں زیادہ اہم نہیں سمجھا گیا، ورنہ اپنی فٹنس کی وجہ سے، وہ ہمیشہ کرکٹ کے تمام فارمیٹس کے لیے ایک مکمل پیکیج رہے ہیں۔ وہ صرف بولنگ کی خاطر گیند بازی نہیں کرتے بلکہ وکٹ لینے کا فن بھی جانتے ہیں۔‘