سندھ میں میوزک ٹیچرز کی تعیناتی کے اعلان پر بحث

صوبہ سندھ کے سیکنڈری سکولوں میں موسیقی اور فنون لطیفہ کے اساتذہ مقرر کرنے کے حکومتی اعلان کی جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) نے مخالفت کی ہے۔

28 اکتوبر 2022 کو لی گئی اس تصویر میں صوبہ سندھ کے ضلع دادو کے ایک سرکاری سیکنڈری سکول میں طالبات پڑھائی میں مصروف ہیں۔ صوبائی حکومت نے سندھ میں موسیقی اور فنون لطیفہ کے اساتذہ کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے (اے ایف پی)

صوبہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسیقی اور فنون لطیفہ کے اساتذہ مقرر کرنے کے حکومتی اعلان پر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) فضل الرحمٰن گروپ کی مخالفت کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا یہ اساتذہ مقرر ہونے چاہییں یا نہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے محکمہ تعلیم سندھ کے نوٹیفکیشن کے مطابق جلد ہی صوبے کے تمام سیکنڈری سکولوں میں فنون لطیفہ یا آرٹس اور موسیقی سکھانے والے اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا۔ 

اس اعلان کے بعد جے یو آئی (ف) سندھ کے جنرل سیکرٹری راشد محمود سومرو نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ قرآن ٹیچر، عربی اور اسلامیات کے اساتذہ بھرتی کرنے کے بجائے سندھ حکومت میوزک ٹیچر کی بھرتی کے لیے اشہتہار دے رہی ہے۔  

راشد محمود سومرو نے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے اپیل کی کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے اس معاملے پر بات کریں۔  

انڈپینڈنٹ اردو نے راشد محمود سومرو سے اس سلسلے میں رابطہ کیا، تاہم انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔  

دوسری جانب سوشل میڈیا پر صارفین بڑی تعداد میں جے یو آئی ف کی مخالفت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

میوزک ٹیچرز کی تعیناتی کے حامی صارفین کا موقف ہے کہ موسیقی سندھی ثقافت کا اہم حصہ ہے اور اسے سکول کی سطح پر سکھایا جانا چاہیے۔

اسامیوں کی تفصیلات

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فنون لطیفہ اور میوزک ٹیچرز کی اسامیوں سے متعلق محکمہ تعلیم سندھ کے ترجمان عاطف وگھیو نے بتایا کہ صوبے میں آرٹس اور میوزک ٹیچرز کی 15 سو اسامیاں موجود ہیں، جن کی منظوری محکمہ مالیات سے مل چکی ہے اور جلد ہی ان پر اساتذہ مقرر کر دیے جائیں گے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عاطف وگھیو نے بتایا: ’ان میں سے 750 اسامیاں آرٹس ٹیچرز اور اتنی ہی میوزک ٹیچرز کی ہیں، یہ اساتذہ صرف سیکنڈری سکولوں میں مقرر کیے جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے مرحلے میں یہ اسامیاں ان تعلیمی اداروں میں پُر کی جائیں گی، جہاں طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔

ترجمان کے مطابق ان اسامیوں کے لیے امیدوار کو موسیقی کی معلومات کے علاوہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف میوزک اینڈ پرفارمنگ آرٹس (سمپا) یا نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) جیسے اداروں سے ڈگری یافتہ ہونا لازمی ہے۔  

عاطف وگھیو نے بتایا کہ ان اسامیوں کے لیے امیدواروں کا تھرڈ پارٹی پالیسی کے تحت جامشورو میں واقع شہید اللہ بخش یونیورسٹی میں ٹیسٹ لیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر بحث  

محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے صوبے کے سکولوں میں میوزک ٹیچرز کی بھرتی کے اعلان اور جے یو آئی کی مخالفت کے بعد سوشل میڈیا خاص طور پر ٹوئٹر پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔  

آزاد علی نامی صارف نے لکھا: ’وزیر تعلیم کو قوم کی نفسیات کا پتہ ہے کہ اس قوم کو کس طرح میلوں، فیسٹیولز اور ادھر ادھر کی باتوں میں الجھائے رکھنا ہے اور اب یہ نیا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ تعلیم کا کیا معیار ہے؟ سکولوں کی حالت کیا ہے؟ بچوں کے پاس کتابیں ہیں نہیں اور یہ لوگ چلے ہیں گٹار اور باجا بجانے۔‘  

 

نجومی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک صارف نے سندھی زبان میں لکھا: ’ایک مولوی دوست نے کہا کہ میوزک ٹیچر کے بجائے سائنس دان بھرتی کیے جائیں تاکہ سندھ ترقی کرے۔ میں نے کہا اچھی بات۔ سائنس کی ضرورت ہے تو دیگر مضامین بشمول اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور عربی زبان کے مضامین بھی ختم ہونے چاہییں اور ان کو تاریخ میں شامل کیا جائے۔‘ 

 

خالد حسین نامی صارف نے سندھی قوم پرست سیاست دان جی ایم سید کی کتاب سے کچھ سطور شیئر کیں: ’صوفی رقص اور موسیقی، شعر و ادب، ہر اس چیز کو جو انسانی کلچر، ثقافت کو زرخیز بناتی ہیں، انسانی جسم و ذہن کو تازہ دم کرتی ہیں اور انسان کو عمل انسانیت کے احترام کے جذبے سے سرشار کرتی ہیں، نا جائز قرار دیتا ہے۔‘  

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس